افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کا عمل مکمل ہونے پر صدر جو بائیڈن انتظامیہ کا پاکستان کے تعاون کے بارے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
افغانستان میں بعض حلقے طالبان کی واپسی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیرا رہے ہیں جسے پاکستان مسترد کر چکا ہے۔ اسلام آباد نے امریکی فورسز اور دیگر شہریوں کے انخلا میں ہر طرح کا تعاون فراہم کیا۔ مبصرین کے بقول اس کے باوجود امریکہ اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان براہِ راست رابطہ ہونا باقی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ 20 برس کے دوران بعض معاملات میں تعاون بھی رہا ہے۔
مفادات میں ٹکراؤ کی وجہ تعلقات میں تناؤ
ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد اگر یہ تعاون نہ ہوتا تو القاعدہ کو کمزر کرنا شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے جہاں باہمی تعاون اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی کے مشترکہ مفاد میں تھا اس کا نتیجہ مثبت رہا ہے۔ البتہ جہاں ان کے مفادات میں ٹکراؤ تھا اس کی وجہ تعلقات میں تناؤ بھی آیا۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بعض سابق حکام افغانستان میں طالبان کی واپسی کی وجہ پاکستان کو قرار دیے رہے ہیں البتہ یہ وقت کسی بحث میں الجھنے کا نہیں ہے۔ بلکہ آگے بڑھنے کا ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کار نے کہا کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا اور طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت بننی چاہیے۔ ان کے بقول اسلام آباد اس سلسلے میں افغانستان میں مستقل بننے والی حکومت سے متعلق فیصلے عالمی برداری کے ساتھ مل کر کرے گا۔
پاکستان کے طالبان سے مستقبل میں تعلقات
نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعلقات کا انحصار وہاں ایک سیاسی تصفیے کے بعد جامع حکومت بننے پر ہے۔ پاکستان کابل میں مستقبل کی حکومت سے تعلقات بین الاقوامی برداری کے ساتھ مل کر استوار کرے گا۔ پاکستان آزادانہ اور تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ پاکستان اس بات کے حق میں تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ کیوں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں تھا۔
ملیحہ لودھی نے کہا کہ صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے دورِ حکومت میں امریکہ کو یہی مشورہ دیا تھا کہ مذاکرات کےذریعے کوئی راستہ نکالیں البتہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مشکل ترین سطح وہ تھی جب امریکہ نے 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تھا اور 2011 میں ہی سلالہ واقعہ پیش آیا تھا۔
واضح رہے کہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکہ کی فورسز کے آپریشن میں اسامہ بن لادن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جب کہ سلالہ میں نومبر 2011 میں ایک فضائی کارروائی میں پاکستان کی فوجی چوکی نشانہ بنی تھی۔ اس حملے میں لگ بھگ دو درجن پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی کے بیانات
ان سالوں میں رونما ہونے والے متنازعہ واقعات کے متعلق ملیحہ لودھی کے مطابق عوامی سطح پر سخت رد عمل آتا رہا ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی ایک دوسرے کے بارے میں یہ کہتے رہے ہیں کہ باہمی تعلقات میں اعتماد کا فقدان ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور پاکستان کے کردار کے بارے میں ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کی توجہ اس وقت امریکہ کی عوام کے سامنے افغانستان سے انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کرنا ہے۔ اس معاملے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکہ کی فوج کے انخلا میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔ انخلا کے بعد بھی پاکستان کا کردار اہم رہے گا۔ کیوں کہ طالبان کو کس طرح اس بات پر آمادہ کیا جائے گا کہ وہ امریکہ اور بین الااقوامی برداری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس رکھیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت طالبان اس بات کا وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان کی سر زمین امریکہ سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
باہمی تعلقات عبوری مرحلے میں
ملیحہ لودھی کے مطابق خطے کی جیو اسٹرٹیجک نوعیت تبدیلی ہو رہی ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات عبوری مرحلے میں ہیں۔ اس دور کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق سفارت کار کے بقول امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ اور واشنگٹن ڈی سی اور نئی دہلی کے تعلقات بھی پاکستان امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہوں گے۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اگرچہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت ایک اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو استوار رکھے۔ امریکہ کے مفادات کے لیے ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام رہے جہاں پاکستان اور بھارت جوہری ممالک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا کہ امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دے تاکہ امریکہ کی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کار کریں۔