امریکہ کے لیے پاکستان کی نامزد سفیر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے تعلقات کو بہتری کی طرف لانا ان کی ترجحیات میں شامل ہے۔
توقع ہے کہ آئندہ ہفتے وہ واشنگٹن میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔
شیری رحمن نے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ ان کے لیے ملک کا مفاد مقدم رہے گا اور وہ اسی تناظر میں امریکہ سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گی۔’’مسئلہ اس وجہ سے بھی آ رہا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں کچھ غیراعلانیہ طور پر معاہدے ہوئے ہیں، غلط فہمیوں کو دور کرنا بہت ضروری ہے اور غلط فہمیوں کا ایک جال ہے جو دور کرنا ہو گا۔‘‘
شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دونوں ممالک کی اپنی اپنی ترجیحات اور حدود ہیں جن کا احترام ضروری ہے۔ ’’سرخ لکریں ہماری بھی ہیں ان کی بھی ہیں تو کوشیش یہ ہے کہ سرخ لکیروں کا تناؤ نہ ہو اور جتنا ہم آپس کی فلاح و بہبود میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں وہ ضرور لائیں خاص کر کے اقتصادی تعلقات میں اور ٹریڈ میں۔‘‘
26 نومبر کو قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات نا صرف کشیدہ ہو گئے بلکہ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے اس واقعہ کے بعد تعلقات جمود کا شکار ہیں۔ پاکستانی پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مستقبل میں تعاون کی شرائط سے متعلق سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی ان سفارشات کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور پاکستان کا کہنا ہے کہ نظرثانی کے اس عمل کے بعد ہی امریکہ اور نیٹو سے تعلقات کا تعین کیا جائے گا۔
رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اُن کا ملک دوطرفہ تعلقات پر نظرِ ثانی کے پاکستانی فیصلے کا احترام کرتا ہے۔
کیمرون منٹر نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ نظر ثانی کے اس عمل کے بعد امریکہ پاکستان کے ساتھ دیانت داری کی بنیاد پر مفصل مذاکراتی عمل شروع کر سکے گا جس میں دونوں ملکوں کے مفادات کو واضح طور پر پیش نظر رکھا جائے گا۔