پاکستانی اداکار عثمان مختار نے ساتھی خاتون فن کارہ پر ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود پر دباؤ کی کیفیت محسوس کر رہے ہیں اور جب اس میں اضافہ ہوا تو انہوں نے محبوراً وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رجوع کیا ہے۔
پاکستان فلم اور ٹی وی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اداکار عثمان مختار نے منگل کو اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ایک ساتھی فن کارہ انہیں سوشل میڈیا پر ایک برس سے زائد عرصے سے بلیک میل، ہراساں اور تنگ کر رہی ہیں۔
عثمان نے مبینہ طور پر بلیک میل کرنے والی خاتون فن کارہ کا نام ظاہر نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عثمان نے بتایا کہ کہ انہوں نے پہلے اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن جب خاتون فن کارہ کی جانب سے بلیک میلنگ بڑھنے لگی تو وہ اس معاملے کو سامنے لے کر آنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان کے بقول اس واقعے کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے اور خاتون کی جانب سے آئے روزہ سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے وہ خود پر دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔
عثمان مختار کے مطابق وہ حکام کی جانب سے تفتیش سے مطمئن ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہ معاملہ خاموشی سے اور جلد اپنے انجام کو پہنچے کیوں کہ اب وہ تھک چکے ہیں۔
اداکار نے کہا کہ پاکستان میں آئے روز خواتین کے ساتھ زیادتی، ہراسانی اور اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں اور اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ تاہم وہ خواتین کی آزادیٔ رائے کے اظہار کا احترام کرتے ہیں لیکن اس معاملے پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
عثمان مختار نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں خاتون کا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ انہوں نے خاتون فن کارہ کے ساتھ 2016 میں ایک میوزک ویڈیو میں بطور ہدایت کار اور ایڈیٹر کام کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شوٹ اور پوسٹ پروڈکشن کے دوران بعض امور پر اختلافات کی وجہ سے انہوں نے اس ویڈیو سے اپنا نام الگ کر لیا تھا۔
اداکار کے بقول میوزک ویڈیو بناتے وقت ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا اور چوں کہ فائنل ویڈیو ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھی اس لیے انہوں نے اس میں کریڈٹ لینا گوارا نہیں کیا۔
عثمان مختار نے کہا کہ میوزک ویڈیو بننے کے چند برس بعد فن کارہ نے اچانک ان کے خلاف ایک سوشل میڈیا کیمپٔن شروع کر دی تھی جس میں ان کے اور ان کے خاندان کے حوالے سے بے بنیاد اور من گھڑت دعوے کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بات حد سے گزر گئی تو انہوں نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے رابطہ کیا جس کے بعد انہوں نے معاملے کی مکمل چھان بین کی۔
اداکار و ہدایت کار نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ وہ تین برس سے اس خاتون کے پیغامات کا جواب نہیں دے رہے کیوں کہ ایسا کرنا انہیں مناسب نہیں لگا۔
عثمان مختار نے خاتون کے پیغامات کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا جس میں انہوں نے معافی مانگی ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کسی کو رسوا کرنا نہیں بلکہ وہ انصاف کے طلب گار ہیں۔
انہوں نے دھمکی دی کہ اگر خاتون اب بھی نہ سدھریں تو وہ ان کے دیگر پیغامات بھی سوشل میڈیا پر ڈال دیں گے۔
ساتھی اداکار، صحافی اور مداح بھی عثمان مختار کے حق میں بول پڑے
اداکار عثمان مختار کے دعووں کے بعد مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر نوجوان اداکار کے مداحوں کی جانب سے ان کے حق میں پوسٹس شیئر کی جانے لگی اور ٹوئٹر پر 'اسٹے اسٹرونگ عثمان مختار' کا ہیش ٹیگ پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہو گیا۔
انسٹاگرام پر عثمان مختار کی پوسٹ پر اداکارہ ماہرہ خان، کبریٰ خان اور ارمینہ خان نے بھی انہیں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جب کہ اداکارہ زارا نور عباس نے بھی انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
دوسری جانب 'می ٹو' کا شکار ہونے والے دو اداکاروں نے بھی عثمان مختار کے حق میں ٹوئٹ کیے۔
گلوکار و اداکار علی ظفر نے عثمان مختار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہی موقع ہے کہ 'می ٹو' کا غلط استعمال کرنے والوں کو 'ایکسپوز' کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عثمان کی پوسٹ دیکھ کر انہیں تین برس پرانا وہ وقت یاد آ گیا جب ایک خاتون فن کار نے ان پر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے تھے۔
کچھ عرصے قبل ہراسانی کے الزام کا سامنا کرنے والے اداکار عمیر رانا بھی عثمان مختار کے سرخرو ہونے اور انہیں انصاف ملنے کے لیے دعا گو ہیں۔
علاوہ ازیں صحافی آمنہ حیدر عیسانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ انہوں نے عثمان مختار کو ایک 'جینٹل مین' اور سلجھا ہوا شخص پایا ہے اور وہ امید کرتی ہیں کہ وہ جلد اس خوف ناک صورت ِحال سے باہر نکلیں گے۔
صحافی مہوش اعجاز نے بھی 'می ٹو' موومنٹ کے حوالے سے کہا کہ خدارا اسے مذاق سمجھ کر استعمال نہ کریں اس موومنٹ کے وقار کو مجروح نہ کریں۔
یاد رہے کہ دو سال قبل ہالی ووڈ کے سابق پروڈیوسر ہاروی وائنسٹین کے خلاف اداکاراؤں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔ بعدازاں دیکھتے ہی دیکھتے اکتوبر 2017 میں دنیا بھر میں لوگوں نے جنسی ہراسانی اور زیادتی کے خلاف سوشل میڈیا پر 'می ٹو' ہیش ٹیگ کو اپنا لیا تھا۔
خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سوشل میڈیا پر بے نقاب کرنا شروع کر دیا تھا اور اس مقصد کے لیے 'می ٹو' کے ہیش ٹیگ کو استعمال کیا جانے لگا تھا۔