پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیرون ملک سے منظم مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد حکومت، عوام اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے دفتر میں بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پراپیگنڈا مہم کا مقصد اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے اور ایسی تمام سرگرمیوں سے ادارے آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس کو بھی جانتے ہیں جو ملک میں اور بیرون ملک بیٹھے یہ کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بیٹھے یہ عناصر فیک نیوز اور من گھڑت باتوں سے اداروں کے درمیان جو دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں وہ پہلے بھی ناکام ہوئے اب بھی ہوں گے۔
افواج پاکستان کے ترجمان کی طرح حکومتی وزراء بھی متعدد بار یہ اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان مخالف پراپیگنڈا میں منظم گروہ ملوث ہیں جنہیں بیرونی امداد بھی حاصل ہے۔
آج خبر سرحد پار جانے کے لیے اجازت کی محتاج نہیں!
بعض تجزیہ نگار اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رہنما سمجھتے ہیں کہ فوج کی جانب سے اس قسم کے بیانات آزاد اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کی کوششوں کا سلسلہ ہے جسے ترک کیا جانا چاہئے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پراپیگنڈا کی جنگ صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور پاکستان کی فوج نے اسے اپنی غلط پالیسوں اور اقدامات کا تمام تر ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے لیے اپنایا ہوا ہے۔
SEE ALSO: مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا عمل ہر صورت مکمل کریں گے: ترجمان پاکستانی فوجوائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فوج یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کے مسائل کی بات کرتے ہوئے فوج کا ذکر نہ کیا جائے اور یہ کوشش اپنے گناہ دھونے کی کوشش ہے۔
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر لوگ ایسی آوازوں پر توجہ دینے مجبور ہیں جو ان حالات کے ذمہ داروں کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ایسے میں عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ فوج کے ترجمان کو کہنا پڑا کہ بیرون ملک بیٹھے لوگ پاکستان کے اداروں کے بارے میں پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ فوج یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح تنقیدی آوازوں کو دبایا جا سکتا ہے اور ان کا یہ بیانیہ عوام قبول کر لیں گے کہ فوج کا ملکی و سیاسی معاملات میں منفی کردار نہیں ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جہاں خبر سرحد پار آنے جانے کے لیے اجازت کی محتاج نہیں ہے۔
فوج کو بےجا تنقیدپرتشویش ہے!
دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ بعض تھینک ٹینکس اور سوشل میڈیا کے افراد کی جانب سے حد سے زیادہ تنقید پر فوج کی قیادت کو تشویش ہو گی کیونکہ اس سے افواج کے بلند حوصلے متاثر ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا فوج کی یہ تشویش جائر ہے کہ ہر روز قربانیوں کے باوجود ان پر بے جا تنقید کی جاتی ہے اور بھارت اور افغانستان کی سرحدی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند رہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوج کے کردار کے حوالے سے بیان کردہ کچھ باتیں حقیقت پر بھی مبنی ہوں گی لیکن اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جانی چاہئے کہ تنقید کو ایک حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔
تاہم جنرل طلعت مسعود سمجھتے ہیں کہ ایسے دور میں جب سوشل میڈیا پر ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، فوج کے ترجمان کی جانب سے ایسے لوگوں کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں جمہوریت سیدھے راستے پر نہیں چلتی اداروں کے کردار کے حوالے سے اس قسم کی تنقید کا سامنا رہے گا۔
جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور فوج و بیورو کریسی اپنے اختیارات کو سیاسی قیادت کے تابع لائیں۔
تنقید کو برداشت کرنا لازم ہے!
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ سیکورٹی اداروں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے اور انہیں ان کی رائے کو برداشت کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کام ہے کہ اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے جو کہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے تو وہ حقائق کی بنیاد پر اس کی تردید کرے۔
وہ کہتی ہیں کہ "اتنے عدم برداشت کا شکار نہ ہوں تنقید کے حوالے سے، جہاں یہ تنقید بہت سے لوگوں کی طرف سے آ رہی ہے کہ مجموعی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اداروں کی کارگردگی کے بارے میں نقص پائے جاتے ہیں تو اسے نہ صرف برداشت کریں بلکہ اپنی کمزوروں کو بھی درست کریں نہ کہ شہریوں کو دھمکیاں دی جائیں۔"
اس سے قبل گزشتہ سال حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ بیرون ملک سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے لیے متعلقہ ممالک کی حکومتوں سے بات کر رہے ہیں تاکہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی نفی کی جا سکے۔
تنقید کو روکنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہئے؟
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس پراپیگنڈے کا سدباب کرنے اور اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اجتماعی سطح پر اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس سلسلے میں اقدامات کر رہی ہے، جھوٹی خبروں کو انفرادی سطح پر بھی روکنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قانون سازی بھی کرنی ہو گی۔
تاہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حناجیلانی سمجھتی ہیں کہ ریاستی اداروں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں جو عام شہریوں اور صحافیوں کی آوازوں کو پابند کرنے کی کوشش ہو گی۔