پاکستان کے مرکزی بینک کے کئی سخت اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کرنسی کی لین دین کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے باوجود بھی پاکستانی روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے۔
رواں برس مئی کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 18 فی صد کی کمی آ چکی ہے۔ اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
اس دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مختلف شہروں میں کارروائیاں کرتے ہوئے کرنسی کے غیر قانونی لین دین میں ملوث 100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان افراد سے بڑی مالیت کی غیر ملکی کرنسی بھی ضبط کی گئی ہے۔
ڈالر کی مانگ میں اضافہ روپے کی قدر میں گراوٹ کی سب سے بڑی وجہ؟
ماہرین کے بقول امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اور تاریخی کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم امریکی ڈالر کی طلب میں اضافہ ہے۔
'اقبال اسماعیل سیکیورٹیز' میں ہیڈ آف ریسرچ اور معاشی ماہر فہد رؤف نے اس طلب میں اضافے کی وجہ درآمدات میں اضافے کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں بھی ایسے اشارے نہیں ملتے جس سے درآمدات میں کمی واقع ہو۔
یاد رہے کہ پاکستان کا گزشتہ ماہ یعنی نومبر میں تجارتی خسارہ پانچ ارب ڈالرز سے بھی زیادہ رہا تھا جو ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارہ ہے۔ ملک کی درآمدات آٹھ ارب ڈالرز سے زیادہ رہی تھی جو کسی ایک ماہ میں سب سے زیادہ درآمدات ہیں۔
ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں اشیا کی درآمد پر کتنا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فہد رؤف کے مطابق جب مارکیٹ میں طلب میں کمی جیسے کوئی اشارے نہ مل رہے ہوں تو پھر ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کی طرح اس بار اسٹیٹ بینک نے بھی روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بڑھا کر رکھنے کے لیے کم ہی کردار ادا کیا ہے۔
ان کے بقول بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں بھی اب کسی حد تک کمی آ رہی ہے۔ پہلے یہ رقم ماہانہ 2.7 ارب ڈالرز تک تھی جو گزشتہ ماہ 2.3 ارب ڈالرز ہو گئی۔ اسی کے ساتھ کرونا وائرس میں کمی کے باعث لوگ بیرونِ ملک جا رہے ہیں، لہٰذا غیر ملکی کرنسی کی طلب بڑھی ہے۔
افواہیں روپے کی قدر میں کمی کا سبب؟
پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین گزشتہ دنوں خود یہ کہہ چکے ہیں کہ معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ روپے کی قدر حقیقتاً 165 سے 167 روپے کے درمیان ہونی چاہیے۔
البتہ ان کے بقول موجودہ صورتِ حال سے لگتا ہے کہ روپیہ 10 روپے سے بھی زیادہ انڈر ویلیو یعنی اپنی حقیقی قدر سے کم پر ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی وجہ افواہیں ہوتی ہیں جو بلا وجہ مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں دیگر کرنسیوں کی قدر بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے بقول حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے روپے کی قدر میں اضافہ متوقع ہے۔
معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان اور افغانستان سے بینکنگ چینل کے بغیر تجارت
لیکن کرنسی کے کاروبار سے جڑے ہوئے افراد کے مطابق روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ درحقیقت معیشت سے متعلق پالیسیوں میں معاشی پہلوؤں کے بجائے سیاسی پہلوؤں کے تحت فیصلے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روپے کی شرح تبادلہ میں کمی کی ایک وجہ افغانستان کے ساتھ تجارت بھی ہے جو کسی بینکنگ چینلز کے زریعہ کے بغیر ہورہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر خرید کر افغانستان کے لیے اشیا کی خریداری کے لیے رقم ادا کی جاتی ہے۔
ظفر پراچہ کے بقول اس رقم سے نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر کئی وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی مال پہنچایا جاتا ہے اور اتنی بڑی رقم باہر نکل جانے سے ہنڈی حوالہ والوں کا بزنس خوب پھیل رہا ہے۔
ایکسچینج مارکیٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت اوپن مارکٹ میں ڈالر 181 روپے کا فروخت ہو رہا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کے تمام قانونی تقاضے پورے کرنا لازم ہیں۔
ذرائع کے مطابق کراچی ہی میں گرے مارکیٹ میں امریکی ڈالر کا ریٹ 188 اور پشاور کی گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 191 پاکستانی روپے ہے۔
افغانستان کے لیے مال منگوانے والے تاجر بلیک مارکیٹ سے ڈالرز اسی لیے خرید رہے ہیں کیونکہ انہیں اس مقصد کے لیے کسی قانونی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں کوئی کراس بارڈر ڈیکلریشن یا بینکنگ ٹرانزایکشن بھی ثابت نہیں کرنا پڑتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی درمیان تجارت کو بینکنگ چینلز کے تحت لانا ہو گا جو ابھی بالکل نہیں ہو رہی اور یہ تجارت اسمگلنگ، حوالہ اور ہنڈی کی نذر ہو رہی ہے۔
ماہرین کے بقول ڈالر کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ بننے والی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بھی پالیسی سخت بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ڈیوٹی فری مال پاکستان کے راستے افغانستان منگوایا جاتا ہے اور پھر وہی مال اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان پہنچتا ہے۔ یوں ملک میں ڈیوٹی اور ایکسچینج ریٹ دونوں ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔
بعض معاشی ماہرین کے مطابق ایکسچینج ریٹ پالیسی میں اس مقصد کے لیے بڑی اصلاحات لانا ہوں گی۔