معاشی بدحالی اور روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا؟

پاکستان کی کرنسی میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے اور صرف ایک ہی روز میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 1.31 فی صد کی بڑی کمی دیکھی گئی۔ بدھ کو کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر 236 پاکستانی روپے کے برابر ہو چکا تھا۔

رواں ماہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 13 فی صد سے زائد گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ یوں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں زبردست کمی سے ملک پر قرضوں کے بیرونی حجم میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

چین سمیت ایشیا کی 12 بڑی معیشتوں میں سری لنکا کے بعد پاکستانی معیشت دوسرے نمبر پر ہے جس کی کرنسی کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں رواں سال تیزی سے کمی دیکھی جارہی ہے۔ فاریکس مارکیٹ میں ریسرچ سے منسلک کمپنیوں کے مطابق 2022 میں سری لنکن روپے کی قدر میں 78 فی صد گراوٹ دیکھی گئی تو پاکستانی روپے کی قدر میں بھی 33 فی صد گراوٹ دیکھی جاچکی ہے۔

اگرچہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی آیم ایف) سے آئندہ ماہ 1.2 بلین ڈالر قرض کی قسط ملنے کے امکانات روشن ہوچکے ہیں جس سے امید ظاہرکی جارہی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ملک کی کرنسی اور بانڈز پر دباؤ کسی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس کے ساتھ دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں سے بھی قرض/امداد ملنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے ۔

لیکن بعض معاشی ماہرین کے خیال میں اس میں مزید ایک ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور اس دوران ملکی کرنسی کی قیمت میں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔


"دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا لیکن معاشی حالت کمزور ہے"

برطانیہ میں مقیم معروف ماہر اقتصادیات یوسف نذر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے محدود آپشنز بچے ہیں اور ملک اس وقت مقامی اور عالمی سطح پر جاری اقتصادی طوفان کی زد میں دکھائی دیتا ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کی معاشی مشکلات ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

یوسف نذر اس سے خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان فوری طور پر تو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچ گیا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں ملک کی معاشی حالت کمزور ہو چکی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ رواں سال پاکستان کی معیشت 4.2 فی صد کی ممکنہ شرح کے بجائے اب 3.5 فی صد کی شرح سے ترقی کرے گی۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 14 برس میں اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح دیکھی گئی ہے ۔ جون 2022 میں گزشتہ سال کے اسی ماہ کے مقابلے میں 21 فی صد کی رفتار سے مہنگائی بڑھی جب کہ ملک کو جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام پر 48 ارب ڈالرز کا بھاری تاریخی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی ملکی تاریخ کا دوسرا بلند ترین یعنی 17 ارب ڈالرز رہاجب کہ پاکستان کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے لگ بھگ 35 ارب ڈالرز کی رواں مالی سال میں ضرورت ہے۔

مرکزی بینک کے پاس تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 9.3 ارب ڈالرز کے ذخائر ہیں جو بمشکل دو ماہ کے درآمدی بل کے برابر رقم ہے۔ مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد قطر اور سعودی عرب کو مؤخر ادائیگیوں پر تیل اور گیس فراہم کرنے کے لیے قائل کر رہا ہے۔

"معاشی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی پوزیشن دیگرممالک کی نسبت بہتر"

دوسری جانب قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضی سید کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت میں کئی بحران بیک وقت ابھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور پاکستان بھی اس طوفان کی زد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دباؤ زیادہ تر عالمی وجوہات کی وجہ سے ہے تاہم اس میں ملکی عوامل بھی شامل ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ، 15 برسوں کی بلند ترین سطح، زرِمبادلہ ذخائر میں کمی، روپے کی قدر میں کمی اور ہمارے بین الاقوامی بانڈز کے پریشان کن حد تک بڑھ جانے والے منافعے اس طوفان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مرتضی سید نے کہا کہ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں نقصان دہ تاخیر اور مالیاتی سطح پر پالیسی کے حوالے سے کوتاہیاں آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیرکا سبب بنیں۔ جس کے نتیجے میں بیرونی رقوم کی فراہمی معطل ہوئی جب کہ بیرونی قرضے کی واپسی کی رقوم بڑھتی رہیں اور فروری سے اب تک زرمبادلہ کے ذخائر میں سات ارب ڈالرز کی بھاری کمی آچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشکلات ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں تاہم اس معاشی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی پوزیشن دیگرممالک کی نسبت بہتر ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل آیا ہے تاہم پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔

اُن کے بقول حکومت جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو روکنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ڈالر کے اضافے کے پیچھے ملک میں جاری سیاسی غیر یقینی کی صورتِ حال بھی کارفرما ہے اور سیاسی میدان میں راتوں رات تبدیلیاں صبح کے وقت مارکیٹ کا تاثر بدل دیتی ہیں۔