اسامہ بن لادن کی امریکی آپریشن میں ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر پارلیمنٹ کا اہم ترین ان کیمرہ اجلاس جمعہ کوہو گا۔ اجلاس میں اسامہ کے خلاف امریکی فورسز کے آپریشن سے متعلق عسکری قیادت کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ لیکن دوسری جانب حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے جس پر مبصرین کا کہناہے کہ انتہائی نازک صورتحال میں بھی سیاسی جماعتوں کا متحد نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ۔
دو مئی کے واقعہ کے بعد سب سے زیادہ ملکی دفاع پر ہی سوالات اٹھے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 9 مئی کو پاک فوج کے افسران سے خطاب کے دوران ایبٹ آباد واقعہ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز وزیر اعظم کو دی تھی۔ آرمی چیف نے اس موقع پر تسلیم کیا تھاکہ ایبٹ آباد واقعے پر ناکافی اور باضابطہ جواب نہ دینے کے باعث عوام میں مایوسی اور بددلی بڑھی۔ پاکستانی عوام کو ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔
دو مئی کو پیش آنے والے واقعہ کے بعد پاکستان کے نہ صرف عوام بلکہ دفاعی تجزیہ کار، سیاسی مبصرین اور سیاسی قیادت بھی دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آتی ہے۔ پاکستانی میڈیا اور عوامی حلقوں میں ایک جانب تو یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر پاکستان میں امریکی طرز پر بھارت یا کسی اورنے بھی اپنے مطلوب افراد کے خلاف کارروائی کی تو کیا ملکی خود مختاری کا دفاع ممکن ہو سکے گا؟
امریکا کی طرز پر القاعدہ اور دیگر تنظیمیں ایسی کوئی کارروائی کرتی ہیں تو انہیں کیسے روکا جائے گا؟پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ بحث عام ہے کہ فوجی ایریامیں اسامہ موجود رہا تو انٹیلی جنس ایجنسیاں کیوں لا علم تھیں؟ سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریا ت کے بجائے دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ جب سی آئی اے کے اہلکار اسامہ کے کمپاؤنڈ پر نظر رکھے ہوئے تھے تو اس وقت ان کا پتہ کیسے نہیں لگا؟
دوسری جانب بہت سے حلقے اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ امریکی آپریشن سے پاکستان کی عسکری قیادت لاعلم تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے تعاون کے بغیر یہ آپریشن کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔سیاسی و عسکری قیادت کو جب آپریشن سے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے اسی وقت احتجاج کیوں نہیں کیا؟
اس تمام تر صورتحال میں بدھ کو ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران ایبٹ آباد واقعہ پر کھل کر تنقید کی تھی جس کے بعد سے ملک کے مختلف بڑے شہروں میں پاک فوج کے حق میں ریلیاں بھی نکالی گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کی حمایت اور تنقید کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور آنے والے وقت میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
اس تناظر میں ملکی قیادت شدید دباؤ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعرات کو اراکین پارلیمنٹ کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے بند کمرہ اجلاس بلایا گیا ہے جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شرکت کریں گے اوراعلی فوجی حکام اور خفیہ اداروں کے سربراہ اس اجلاس میں پارلیمنٹرینز کو حقائق سے آگاہ کریں گے جبکہ سوال و جواب کا سیشن بھی ہو گا۔
ان کیمرہ اجلاسوں کی تاریخ
اس سے قبل ملکی تاریخ میں تین ان کیمرہ اجلاس منعقد ہوئے۔ 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے، 1988 میں افغانستان پر سوویت قبضے کے خاتمے سے متعلق جنیوا معاہدے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اکتوبر 2008 میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ان کیمرہ اجلاس طلب کئے گئے ۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے ان کیمرہ اجلاس میں شرکت سے متعلق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی دعوت مسترد کر دی ہے۔ نواز شریف کاکہنا ہے کہ ایبٹ آباد واقعہ سے متعلق وہ اپنا موقف واضح کر چکے ہیں اس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے ۔
اس سے قبل قائد حزب اختلاف چوہدری نثار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کیمرہ اجلاس کے بجائے موجودہ صورتحال میں قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ کسی حد تک پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔
مبصرین کے مطابق اس نازک صورتحال میں مسلم لیگ ن کا اجلاس میں شرکت نہ کرنے کافیصلہ تشویشناک امرہے۔ بند کمرہ اجلاس کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نازک موڑ پر تمام سیاسی و عسکری قیادت کو ملکی بقاء کی خاطرمتحد ہوناپڑے گا۔