پاکستان کی حدود میں یوایس اسپیشل فورسز کے ایک خفیہ مشن میں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت نےپاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔ کچھ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ، جو پہلے ہی تناؤ کاشکار ہیں، بہتری کے بجائے مزید کشیدگی پیدا ہوگی ، کیونکہ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد کی پاکستان کی ایک اہم فوجی چھاؤنی کے قریب موجودگی کے بارے میں پاکستان کو بہت سے سوالات کے جواب دینا ہونگے۔
چند روز قبل ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کی یک طرفہ کارروائی میں القاعدہ کے بانی راہنما اوسامہ بن لادن کی ہلاکت نے مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔کئی برسوں سے امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا ایک اہم اتحادی کہتا آیا ہے ۔ مگرکچھ عرصہ قبل ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہوئے اور امریکی ماہرٕیں کا خیال ہے ایبٹ آباد کے واقعے کے بعدیہ تعلقات مزید متاثر ہونگے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ڈاکٹر سبسٹین گورکا کا کہناہے کہ میرا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کسی طرح بھی بہتری کی طرف نہیں جائیں گے۔ اس کے باوجود کہ ہم دس سال سے اوسامہ بن لادن کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کی کوششوں میں تھے اور اب ہمیں اس میں کامیابی ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اوسامہ پاکستان میں ایک اہم فوجی چھاؤنی کے قریب رہائش پذیر تھے ۔ جس کا مطلب یہ ہے دونوں کے درمیان اعتماد کے فقدان میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اس واقعے کے بعد امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اوسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی مشترکہ نہیں تھی مگر اس میں کامیابی پاکستان کے تعاون سے ہی ممکن ہوئی ہے۔اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ مگر قومی سلامتی کے امریکی تجزیہ نگار جاش مائیرکہتے ہیں کہ پاکستان پر دباؤ کم نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے اس بات کا اصرار کہ پاکستان مزید اقدامات کرے اب اور بھی زیادہ ہو گا۔ میرے خیال میں امریکہ کی جانب سے بن لادن کے خلاف یک طرفہ کارروائی کے بعد پاکستان کو کئی سوالات کے جوابات دینے ہونگے جیسے یہ کہ کیا پاکستان القاعدہ کے خلاف آپریشنز میں مددگار رہا ہے جس میں زیادہ تر غیرملکی عسکریت پسند شامل ہیں۔ اور کیا پاکستان مقامی مذہبی عسکریت پسندگروہوں جیسے لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف کوئی اقدامات اٹھا رہا ہے یا نہیں۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے منسلک قومی سلامتی کے امور کے پروفیسرگورکا اوسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے مستقبل کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ممکنہ طور پر ان کے قریبی ساتھی ایمن الظواہری ان کی جگہ لیں گے جس سے القاعدہ کے انتہا پسند نظریات اور فلاسفی کمزور ہونے کی بجائے زیادہ مضبوط ہوگی ۔
ان کا کہناتھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ٕاوسامہ کے قریبی ساتھی مصری ڈاکٹر ایمن الظواہری ان کی جگہ لیں گے۔ پچھلے دس سالوں کے دوران امریکی اقدامات کی وجہ سے القاعدہ کی امریکہ کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے کی صلاحیت کمزور ہو گئی ہے ۔ مگر الظواہری جیسے دانشور اور نظریاتی سوچ رکھنے والے شخص کے قیادت سنبھالنے سے القاعدہ کی ایک نئی شکل ابھرے گی جو نظریاتی طور پر زیادہ مضبوط ہوگی۔
امریکی ماہرین کا کہنا ہے امریکی حساس ادارے سی آئی آے کے سربراہ کا یہ بیان کہ اگر انتظامیہ اس کارروائی کے بارے میں پاکستانی حکام کو آگاہ کرتے تو مشن ممکنہ طور پر ناکام ہوسکتا تھا ۔ اعتماد کے اس فقدان کی عکاسی کرتا ہے جو دونوں ملکوں کے حساس اداروں میں پایا جاتا ہے۔