بھارت میں گزشتہ ماہ ہونے والے عالمی فلم فیسٹیول میں بہترین اینیمیٹڈ فلم کا ایوارڈ جیتنے والی طالبہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اینیمیٹڈ سیریز بنانے کی خواہاں ہیں۔
کرونا کے باعث گزشتہ ماہ بھارتی ریاست جھار کھنڈ میں ورچوئل یعنی آن لائن ہونے والی تقریب میں طالبہ ماریہ جاوید کی فلم 'رنڑا' کو فلم کو موٹیویشنلز انوائرمنٹ کیٹیگری میں پہلا انعام دیا گیا۔
ان ایوارڈ میں دنیا کے 50 ملکوں سے نوجوانوں نے اپنا کام پیش کیا تھا۔
ماریہ جاوید کہتی ہیں کہ 'رنڑا' پشتو میں روشنی کو کہتے ہیں اور اس فلم کی کہانی بچوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کے گرد گھومتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماریہ جاوید نے بتایا کہ فلم کی کہانی ایک پختون بچے اور ایک کردار 'روشنی' پر مبنی ہے۔ بچے کو اسلامیہ کالج پشاور میں دکھایا گیا ہے۔ زیادہ تر فلم میں قصہ خوانی بازار کی عکس بندی کی گئی ہے۔
ماریہ جاوید نے بتایا کہ اُن کی فلم کی کہانی بنیادی طور پر بچوں کے بارے میں ہے۔ اُن کے بقول بچے زیادہ تر اپنے ارد گرد کا ماحول دیکھ کر جارحانہ رویے اختیار کرتے ہیں۔
ان کے بقول تحقیق کے مطابق بچہ وہی سیکھتا ہے جو وہ دیکھتا ہے۔
ماریہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ بچوں کو نصیحتیں تو بہت اچھی اچھی کر لیتے ہیں لیکن عملی طورپر بچوں کو جو دکھا رہے ہوتے ہیں وہ پر چیز کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ جو کہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ میں نے اپنی فلم کا آئیڈیا یہیں سے لیا کہ بچہ وہی عادات اپناتا ہے جو ہم اسے دکھاتے ہیں۔
ماریہ جاوید کے مطابق آج کل بچے سوشل میڈیا کے ساتھ بہت زیادہ جُڑے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ یوٹیوب ہے۔ موبائل فون ہے یا آئی پیڈ، ان سب چیزوں سے بچہ سیکھتا ہے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ بنیادی طور پر بچوں کو مواد ہی ایسا دکھایا جائے جس سے بچے کو وہ کچھ سکھایا جا سکے جو آپ چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول اس معاملے میں والدین کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ کانٹینٹ بنانے والے ایسا مواد بنائیں جس سے بچے کچھ سیکھ سکیں۔ چاہے وہ بچہ پاکستانی ہے، انڈین ہے، امریکی ہے یا کسی بھی اور ملک کا ہے۔
ماریہ کہتی ہیں کہ کوئی بھی قوم اپنی نوجوان نسل پر چلتی ہے۔ بچے کو وہی چیزیں دکھائیں جس سے اُس کی اچھی پرورش ہو رہی ہے۔ بچہ جو دیکھ رہا ہے وہ ویسا ہی بن رہا ہے۔
ماریہ کہتی ہیں کہ بچہ اینیمیٹڈ چیزوں سے بہت زیادہ سیکھتا ہے۔ اُن کے بقول انہوں نے اینیمیٹڈ کا انتخاب اِس لیے کیا کہ انہیں یوں لگتا ہے کہ بچے عام فلموں کی نسبت اینیمیٹڈ فلموں کو زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا یہ بہت کارگر طریقہ ہے۔
ماریہ کہتی ہیں کہ اینیمیشن کے ذریعے بچوں کو کچھ بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ اِس پر بہت تحقیق ہوئی ہے۔ بچہ جب بھی بیٹھ کر کسی کردار کو دیکھتا ہے یا اُس کا مشاہدہ کرتا ہے تو اُسے یوں لگتا ہے کہ اُس کے ذہنی معیار کے مطابق بات ہو رہی ہے۔ وہ آسانی سے سیکھتا ہے اور ویسا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اینیمیشن کے ذریعے بچوں کو مذہب اور ثقافت زیادہ بہتر انداز میں سکھائی جا سکتی ہے۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ ایوارڈ جیتنے کا تو اتنا یقین نہیں تھا صرف ایک شوق تھا کہ یہ ایوارڈ جیتنا ہے۔ لیکن اُنہیں یہ ضرور یقین تھا کہ اُن کا کام اس فلم فیسٹیول کے لیے منتخب ضرور ہو جائے گا۔ کیوں کہ اُن کے تھیسز کو این سی اے میں بھی ایوارڈ ملا تھا۔
اُن کے بقول ان کے لیے یہ ایوارڈ جیتنا حیران کن تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے کام کا انتخاب کیے جانے پر بھی انہیں بہت خوشی ہوئی تھی لیکن یہ ایوارڈ ملنے سے ان کے کام پر مہر لگ گئی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے ماریہ جاوید کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے بہت حیرت کی بات تھی کہ بھارت سے اُنہیں ایوارڈ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف بہت سارے مسائل چل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آرٹسٹ ایک دوسرے کے ملک میں نہیں جا سکتے۔ سیاسی مسائل چل رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بھارت میں کسی پاکستانی کا ایوارڈ جیتنا ایک مثبت عمل ہے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ٹی وی کمرشلز اور دوسری چیزوں میں اینیمیشن تو استعمال ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن بچوں کے لیے اب بھی کم کام ہو رہا ہے۔
ماریہ جاوید کے مطابق ایوارڈ دینے کی باقاعدہ تقریب گزشتہ ماہ اکتوبر میں ہونی تھی۔ جسے کرونا وائرس کے باعث ملتوی کر دیا گیا ہے۔ جو اب آئندہ برس ہو گی۔