|
فلسطینی صدر محمود عباس نے جمعرات کو اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں امریکہ پر تنقید کرتے ہوئےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کر دے تاکہ مغربی کنارے اور غزہ میں خونریزی کو روکا جا سکے ۔
عباس نے کہا کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو غزہ میں اپنی جنگ کے لیے سفارتی ڈھال اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود جاری رکھا۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اب یہ تعداد 41,534 ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے کہا "یہ جرم بند کریں۔ بچوں اور عورتوں کا قتل بند کریں۔ نسل کشی بند کریں۔ اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کریں۔ یہ پاگل پن جاری نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا غزہ اور مغربی کنارے میں ہمارے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار پوری دنیا ہے۔"
انہوں نے کہا،’’ امریکہ اکیلا کھڑا ہوا اور کہا ،نہیں، لڑائی جاری رہے گی۔‘‘ بقول انکے ،’’ اس(امریکہ) نے ایسا ویٹو کے استعمال سے کیا۔ ‘‘
وہ غزہ میں اسرائیل کی مہم کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرار دادوں کے حواالے سے بار بار ویٹو کے استعمال کا حوالہ دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا امریکہ نے اسرائیل کو وہ مہلک ہتھیار مہیا کیے جو اس نے ہزاروں بے گناہ شہریوں، بچوں اور عورتوں کو مارنے کے لیے استعمال کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اس سے اسرائیل کو جارحیت جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی ہوئی،" ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں رہنے کا "حقدار نہیں ہے۔"
واشنگٹن اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی اور حمایتی ہے، جو اس ملک کو اربوں ڈالر کی امداد اور فوجی سامان فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل کا رد عمل
اسرائیل نے،جس کی دائیں بازو کی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو تنہا کرنا چاہتی ہے عباس کی تقریر پر فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں حماس کی مذمت نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کے لیے اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے صدر محمود عباس کی تقریر کے جواب میں نسل کشی جیسے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ فلسطینی صدر نے 26 منٹ کی تقریر میں ایک بار بھی حماس کا نام نہیں لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کسی پر امن حل کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے ہیں۔اس سے بڑی کوئی اور منافقت اور جھوٹ نہیں ہو سکتا ۔
ڈینن نے زور دیا کہ حماس کے خلاف اسکی کاروائیاں اسکے اپنے دفاع کیلئے ضروری ہیں۔
محصور غزہ کی پٹی کے 24 لاکھ لوگوں کی اکثریت، جنگ کے باعث، کم از کم ایک بار جنگ کے باعث بے گھر ہو چکی ہے اوربہت سے لوگ اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ تلاش کر رہے ہیں ۔
حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گرد حملے سے شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق،اسرائیل کے 1,205 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے ۔ ان میں اسیری میں مارے گئے یرغمالی بھی شامل ہیں۔
اس دن یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے 97 اب بھی غزہ کی پٹی کے اندر قید ہیں، جن میں وہ 33 بھی شامل ہیں جن کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔