رسائی کے لنکس

اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، فوٹو اے ایف پی ، 18 ستمبر 2024
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، فوٹو اے ایف پی ، 18 ستمبر 2024
  • اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضےکو بارہ ماہ کے اندر ختم کرنے اور عدم تعمیل پر پابندیوں کے مطالبے پر مبنی قرار داد منظور کر لی۔
  • یہ قرار داد اس سال حاصل کیے گئے نئے حقوق کے تحت فلسطینی وفد کی طرف سےپیش کی گئی پہلی قرار داد ہے۔
  • پابند نہ کرنے والی قرار داد بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی ایک مشاورتی رائے پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1967 سے قبضہ "غیر قانونی" تھا۔
  • قرار داد کےحق میں 124 ووٹ، مخالفت میں 14 اور 43 غیر حاضر رہے۔
  • امریکہ نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، ہنگری، جمہوریہ چیک اور کئی چھوٹے جزیروں کے ملکوں نے ایسا ہی کیا تھا۔
  • فلسطینی وفد نے قرارداد کی منظوری کو "تاریخی" قرار دیا۔
  • اسرائیل نے قرارداد کو مسخ شدہ اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ تشدد کو ہوا دے گی۔

اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے بدھ کے روز جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو 12 ماہ کے اندر ختم کرنے اور عدم تعمیل پر پابندیوں کے مطالبے کے حق میں باضابطہ طور پر ووٹ دیا۔

یہ پابند نہ کرنے والی قرار داد جسےاسرائیل نے مسخ شدہ اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے تشدد کو ہوا ملےگی بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی ایک مشاورتی رائے پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1967 سے قبضہ "غیر قانونی" تھا۔

قرار داد کےحق میں 124،اور مخالفت میں 14 ووٹ دیے گئے، اور قابل ذکر طور پر 43 ارکان غیر حاضر رہے، فلسطینی وفد نے قرار داد کی منظوری کو "تاریخی" قرار دیا۔

امریکہ نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، ہنگری، جمہوریہ چیک اور کئی چھوٹے جزیروں کے ملکوں نےبھی قرار داد کی مخالفت کی۔

قرار داد میں پیش کئے گئے مطالبے

یہ قرار داد جو اس سال حاصل کیے گئے نئے حقوق کے تحت خود فلسطینی وفد کی طرف سےپیش کی گئی پہلی قرار داد ہے، مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل "مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو بلا تاخیر ختم کرے۔"

قرارداد میں فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فورسز کے انخلاء، نئی بستیوں کی تعمیر روکنے، غصب شدہ اراضی اور املاک کی واپسی اور بے گھر فلسطینیوں کی ممکنہ واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس میں ملکوں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے اقدامات کریں کیونکہ "اس شبہ کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔"

اس میں قرارداد کی منظوری کے "12 ماہ کے اندر اندر" انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جبکہ پچھلے مسودہ قرار داد میں صرف چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

اسرائیل کا رد عمل

اسرائیل کے خصوصی نمائندے ڈینی ڈینن فوٹو اے ایف پی
اسرائیل کے خصوصی نمائندے ڈینی ڈینن فوٹو اے ایف پی

اسرائیل نے اس قرارداد کو سختی سے مسترد کر دیا۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے X پر کہا کہ"یہی مضحکہ خیز بین الاقوامی سیاست ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ ایک مسخ شدہ فیصلہ ہے جو حقیقت سے کٹا ہوا ہے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے ووٹنگ سے قبل قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیز قرار دیا اور کہا کہ اس سے امن کا مقصد آگے نہیں بڑھے گا۔

تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ "یہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ تسلیم کرنے میں بھی ناکام ہے کہ حماس جو ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اس وقت غزہ میں طاقت، کنٹرول اور اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے لئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ، فائل فوٹو
اقوام متحدہ کے لئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ، فائل فوٹو

فلسطینی رد عمل

فلسطینی سفیر ریاض منصور نے پیر کو کہا کہ "خیال یہ ہے کہ آپ جنرل اسمبلی میں عالمی برادری کے دباؤ اور عالمی عدالت انصاف کے تاریخی فیصلے کے دباؤ کو استعمال کرکے اسرائیل کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں ۔"

فلسطینی نمائندے ریاض منصور ، فوٹو اے ایف پی
فلسطینی نمائندے ریاض منصور ، فوٹو اے ایف پی

منگل کو ووٹنگ سے قبل منصور نے کہا، "فلسطینی خود کو بچانا نہیں بلکہ جینا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے گھروں میں محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔۔‘‘

انہوں نے کہا کہ" اس غیر انسانی سلوک کو روکنے کے لیے آخر کار تبدیلی آنے سے پہلے اور کتنے فلسطینیوں کو قتل کرنے کی ضرورت ہے؟

یہ اقدام اسرائیل پر حماس کے اس غیرمعمولی حملے کے ایک سال مکمل ہونے سے چند ہفتے قبل بھی سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ میں تباہ کن اور انتقامی جنگ شروع ہوئی جو ابھی تک جاری ہے ۔"

ہیومن رائٹس واچ

ہیومن رائٹس واچ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر لوئس چاربونیو نے کہا کہ "اسرائیل کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بھاری اکثریت کے مطالبے پر توجہ دینی چاہیے۔"

غزہ کے مسئلے پر سابق قراردادیں

عرب ملکوں نے یہ خصوصی اجلاس اس سے چند روز قبل بلایا تھا جب درجنوں عالمی رہنما اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اس سال جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے لیے اکٹھے ہونے والے ہیں ۔

سلامتی کونسل غزہ کے مسئلے پر بڑی حد تک مفلوج ہے کیوں کہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل کی مذمت کو بار بار ویٹو کر رہا ہے -- تاہم جنرل اسمبلی نے موجودہ جنگ کے دوران فلسطینی شہریوں کی حمایت میں کئی مسودے منظور کئے ہیں۔

جنرل اسمبلی میں کسی بھی ملک کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے ۔

مئی میں اسمبلی نے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی مکمل رکنیت سے متعلق ایک بڑی علامتی قرارداد کی بھاری اکثریت سے حمایت کی، جس کے حق میں 143، مخالفت میں 9 ارکان نے ووٹ دئے جب کہ 25 غیر حاضر رہے ۔

اس سے قبل سلامتی کونسل میں واشنگٹن نے اس اقدام کو ویٹو کر دیا تھا۔

غزہ جنگ کے اثرات

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی گنتی کے مطابق، اسرائیلی جانب سے قید میں ہلاک ہونےوالےیرغمالوں سمیت 1,205 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اس دن یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے سمجھا جاتا ہے کہ 97 اب بھی غزہ کی پٹی کے اندر قید ہیں، جن میں وہ 33 بھی شامل ہیں جن کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام غزہ میں وہاں وزارت صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی فوجی مہم میں 41,272 سے زیادہ فلسطینی، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان اعداد و شمار کو قابل اعتماد تسلیم کیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق 27 اکتوبر سے شروع ہونے والی زمینی کارروائی کے بعد سے غزہ کی فوجی مہم میں 348 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اےایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG