پاکستان کی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کی فوج کے مکمل انخلا کے بعد خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں پناہ گزین پاکستان آ سکتے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ عسکری قیادت نے سیاسی رہنماؤں کو بتایا ہے کہ افغانستان سے مہاجرین کی آمد پر انہیں سرحدی علاقوں تک محدود رکھا جائے گا۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کا جمعرات کو سہ پہر تین بجے شروع ہونے والا غیر معمولی اجلاس رات 11 بجے تک پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری رہا جس میں افغانستان سے امریکہ کی فوج کے انخلا کے سبب بدلتی علاقائی صورتِ حال زیرِ غور آئی۔
پاکستان کی حکومت و عسکری حکام کا اندازہ ہے کہ ہمسایہ ملک میں شورش میں اضافے یا خانہ جنگی کے نتیجے میں پانچ سے سات لاکھ پناہ گزین پاکستان آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں پہلے سے 30 لاکھ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر 1980 میں سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد آئے تھے۔
اس کے بعد 1990 میں سویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد خانہ جنگی کے نتیجے میں بھی لاکھوں پناہ گزینوں نے ہمسایہ ملکوں پاکستان اور ایران کا رخ کیا تھا۔
رواں ہفتے ہی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کے نتیجے میں مزید افغان پناہ گزین ہمسایہ ممالک کی جانب ہجرت پر مجبور ہوں گے جس سے پاکستان میں دہشت گردی کو تقویت ملے گی۔
اس بریفنگ میں شامل ایک سیاسی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان آنے والے مہاجرین کے لیے سرحدی علاقوں میں ہی کیمپ بنانے کا منصوبہ ہے اور انہیں ملک کے دیگر علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
قومی سلامتی کمیٹی کے رکن نے بتایا کہ ایران میں افغان مہاجرین پہلے سے اسی طرز پر رہائش پذیر ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربے کو دیکھتے ہوئے اب پاکستان کی حکومت بھی اسی حکمتِ عملی کو اپنائے گی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی میں اضافہ ہوا تو پاکستان اپنی سرحد مہاجرین کے لیے نہیں کھولے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اجلاس میں حکومتی و عسکری حکام کی جانب سے جو حقائق سامنے رکھے گئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ افغانستان میں حالات خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی و عسکری حکام نے جو حقائق سامنے رکھے ہیں اس پر پارلیمنٹ کا بند کمرہ اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ سیاسی قیادت حکمت عملی کا تعین کرے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہمسایہ ملک میں شورش میں اضافے کو دیکھتے ہوئے افغانستان سے متصل سرحد پر باڑ لگانے کے کام کو تیز کرتے ہوئے 90 فی صد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔
اجلاس میں شریک ایک رکن پارلیمنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام پانچ سال سے جاری ہے اس عمل کو رواں سال کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا۔
پاکستان کی حکومت افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد پر خاردار باڑ لگا رہی ہے جس کا مقصد سیکیورٹی کو درپیش خطرات سے نمٹنا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی سر زمین افغانستان میں جاری تنازع میں استعمال نہیں ہو رہی۔ امید ظاہر کی گئی ہے کہ افغانستان کی سر زمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
’طالبان پاکستان کی سفارشات کو نظر انداز کر رہے ہیں‘
عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو دی جانے والی بریفنگ میں طالبان کے ساتھ تعلقات اور ان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کا بھی تذکرہ رہا۔
اجلاس میں شریک ایک رکن نے بتایا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ افغانستان کے پر امن حل کی طرف جائیں۔ البتہ طالبان ہمسایہ ملک کی سفارشات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ کے انخلا کے اعلان کو طالبان اپنی فتح تصور کر رہے ہیں جس سے پاکستان کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کے محدود ہونے کا ذکر کیا ہو۔ تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی تازہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر اثر کم ہو رہا ہے۔
سیاسی رہنماؤں نے بتایا کہ پاکستان کی فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کسی نتیجے کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہی۔
طالبان پر اثر و رسوخ اور ہمسایہ ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان افغان امن عمل کا اہم فریق رہا ہے اور واشنگٹن اس بات کا اعتراف کرتا رہا ہے کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں اسلام آباد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور تحریک طالبان افغانستان کے آپس میں روابط موجود ہیں۔
ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ البتہ افغان طالبان نے اس گروہ سے اپنے تعلقات کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’ہم طالبان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی اور دوسرے گروہوں کو کسی ایسے کام کی اجازت نہیں دیں گے جس سے پاکستانیوں کی جان و مال کو نقصان پہنچے۔‘
گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کی تجزیاتی معاونت و پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے یہ اشارہ دیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان اب بھی افغان سر زمین پر افغان طالبان کی مرضی اور مدد سے کام کر رہے ہیں۔