امریکہ کے نیشنل آرکائیوز نے جمعرات کو سابق صدور اور نائب صدور کے نمائندوں کو ایک خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ صدارتی ریکارڈ ز ایکٹ کی تعمیل کو یقینی بنائیں ۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ خطوط سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، باراک اوباما ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن ، جارج ایچ ڈبلیو بش اور رونلڈ ریگن کے نمائندوں اور سابق نائب صدور پینس، بائیڈن ، ڈک چینی ، ایل گور اور ڈین کوائل کو بھیجے گئے ۔
اس ایکٹ کے مطابق کوئی بھی ایسا ریکارڈ جو کسی صدر نے بنایا یا وصول کیا ہو، امریکی حکومت کی ملکیت ہوتا ہے اور کسی انتظامیہ کے ختم ہونے کے بعد اس کو سنبھالنا آرکائیوز کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
جمعرات کو آرکائیوز ڈیپارٹمنٹ نے خط میں لکھا کہ انتظامیہ کے ختم ہونے کے بعد صدارتی ریکارڈز ایکٹ کی تعمیل کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ یہ جائزہ لیں کہ آپ کی انتظامیہ سے منسلک کوئی بھی مواد جو خفیہ ہو یا غیر خفیہ مواد آرکائیوز سے باہر تو نہیں ۔
سابق صدور ٹرمپ، اوباما ، کلنٹن اور سابق نائب صد ر پینس، ڈک چینی اور ڈین کوئیل کے ترجمانوں نے اس بارے میں تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
SEE ALSO: سابق نائب صدر پینس کی رہائش گاہ سے بھی کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمدسابق صدر جارج ڈبلیو بش کے چیف آف اسٹاف فریڈی فورڈ نے آرکائیوز کو اپنے جواب میں کہا کہ بش کے دفتر کا خیال ہےکہ ایسی کسی تلاشی کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کے نوٹ کا شکریہ ۔ ہم اس کا مقصد سمجھتےہیں اور ہمیں اعتماد ہے کہ ایسا کوئی مواد ہماری زیر ملکیت نہیں ہے۔
بائیڈن کے وکلا کو ان کی نائب صدارت کے دور کی کچھ خفیہ دستاویزات ایک مقفل الماری سے اس وقت ملیں جب وہ ان کے اس دفتر کو سمیٹ رہے تھے جسے وہ نومبر میں استعمال نہیں کر تے تھے ۔ اس کے بعد سے ایف بی آئی اور بائیڈن کے وکلا ء نے مزید دستاویزات تلاش کی ہیں ۔
سابق نائب صدر پینس نے بھی اس ہفتے کچھ دستاویزات دریافت کیں اور انہیں یہ کہہ کر آرکائیوز کے حوالے کر دیا کہ اس سےقبل وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے پاس کوئی دستاویز ہے ۔
وائٹ ہاؤس نے تبصرے کی کسی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا لیکن بائیڈن کے وکلاء اور ایف بی آئی کی تلاشیوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آرکائیوز کی درخواست کی تعمیل کی گئی ہے۔
SEE ALSO: خفیہ دستاویزات کے مسئلے کے جلد حل کا منتظر ہوں:بائیڈنآرکائیوز نے اس ضمن میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر سے لے کر اب تک امریکہ کے صدور ، ان کی کابینہ کے ارکان اور انتظامیہ کے اسٹاف کی جانب سے خفیہ دستاویزات کو سنبھالنے کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے ۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مرضی سے کلاسیفائیڈ مواد کو فلوریڈا کی اپنی رہائش گاہ میں رکھا جس کے نتیجےمیں ایف بی آئی نے گزشتہ سال ایک غیر معمولی کارروائی میں ہزاروں صفحات کا ایک ریکارڈ اپنے قبضے میں لیا ۔
جمعرات کوایک نیوز کانفرنس میں، جس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا ، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا کہ اگرچہ وہ وہ کسی مخصوص جاری کارروائی پر بات نہیں کر سکتے لیکن ہم خفیہ دستاویزات کو سنبھالنے سے متعلق تفتیشی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہمار ے کاونٹر انٹیلی جنس ڈویژن اور کاونٹر انٹیلی جنس پروگرام کے معمول کے کام کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو خفیہ معلومات کو سنبھالنے کے قوانین اور ضابطوں سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ وہ ضابطے کسی مقصد سے بنائے گئے ہیں ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔