امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگان) نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان، افغانستان کے آدھے سے زیادہ ضلعی مراکز پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ لہٰذا آنے والے مہینے افغان حکومت کی قیادت اور عزم کا امتحان ہوں گے۔
امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بدھ کو پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اندازے جو ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان افغانستان کے اطراف میں تیزی سے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں، وہ حقیقت سے دُور نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ کے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق مارک ملی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے 212 ضلعی مراکز جو کہ ملک کے کل اضلاع کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور طالبان جنگجو ملک کے 34 میں سے 17 صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
جنرل ملی نے کہا کہ "ایسا لگتا ہے کہ اسٹریٹیجک مومینٹم طالبان کے پاس ہے۔"
جنرل مارک ملی نے کہا کہ "طالبان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آبادی کے بڑے مراکز کو الگ تھلگ کر دیں۔ وہ یہی کچھ کابل کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ بہت سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔"
یہ اعتراف افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے اپنے باقی ماندہ فوجی نکالنے کے عمل کے ڈھائی ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکہ کے چوٹی کے عہدیداروں اور صدر جو بائیڈن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ طالبان کا افغانستان پر قبضے کا امکان نہیں ہے۔
لیکن واشنگٹن میں قائم ادارے 'فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز' کے جریدے 'لانگ وار جرنل' نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جب سے غیر ملکی افواج نے افغانستان سے انخلا شروع کیا ہے، طالبان نے اپنے کنٹرول والے اضلاع کی تعداد تین گنا کر لی ہے۔
گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں متعدد انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ طالبان وہ کچھ حاصل کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں جو وہ مذاکرات کی میز پر حاصل نہیں کر سکے تھے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ طالبان کے کمانڈرز افغان تنازع کے فوجی حل پر مصر ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنرل ملی نے جب جون میں کانگریس کو افغان صورتِ حال سے متعلق بریفنگ دی تھی تو اس وقت طالبان نے 81 ضلعی مراکز پر کنٹرول حاصل کیا تھا جب کہ اب یہ تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔
جنرل ملی نے خبردار کیا کہ طالبان کا یہ مؤقف مان لینا بھی ایک غلطی ہو گی کہ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز بالکل اُن کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔
ان کے بقول افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اضلاع سے اس لیے بھی پیچھے ہٹ رہی ہیں کہ وہ خود کو زیادہ منظم کر سکیں اور ان کی سوچ یہ ہے کہ آبادی کو محفوظ بنایا جائے۔ اور زیادہ تر آبادی صوبائی دارلحکومتوں میں رہتی ہے۔
جنرل مارک ملی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے افغان فوج کے ترجمان جنرل اجمل عمر شنواری نے جمعرات کو نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ جنگ کے دوران کوئی بھی فریق ضلعی مرکز پر قبضے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان فواد امان نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ افغان فورسز ضلعی مراکز کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک بڑا آپریشن کرے گی۔
SEE ALSO: کیا افغانستان کی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
ادھر امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ افغان سیکیورٹی فورسز اور حکومت کی مدد کے لیے پر عزم ہے۔
تاہم دوسری جانب امریکی حکومت کے حلقوں کے اندر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کے سامنے ٹھیرنے کی اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں۔
بدھ کو پینٹاگان نے بتایا کہ افغان مترجمین اور ان افراد کا پہلا گروپ جلد امریکہ پہنچ رہا ہے جن کی زندگیاں افغانستان کے اندر خطرے میں ہو سکتی ہیں۔
وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ''یہ امریکہ کے دوست ہیں جنہوں نے مثالی طور پر بڑا حوصلہ مندانہ کام کیا ہے اور ہم ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے اپنی ذمے داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔''