خیبر پختونخوا کی سب سے قدیم درس گاہ پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے مالی بحران کے باعث ملازمین کو پوری تنخواہ کی ادائیگی سے معذرت کا اظہار کیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس سے جمعرات کو جاری ہونے والے مختصر اعلامیے میں یونیورسٹی ملازمین کو مطلع کیا گیا ہے کہ مالی مشکلات کے سبب یونیورسٹی ملازمین کو جنوری کی مکمل تنخواہ کی ادائیگی ممکن نہیں اور اس ماہ صرف بنیادی تنخواہ ادا کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق مالی بحران کے باعث ملازمین کے تمام الاؤنسز کی ادائیگی مؤخر کر دی گئی ہے۔ تاہم حالات کو دیکھتے ہوئے بقایاجات بعد میں ادا کیے جائیں گے۔
یونیورسٹی حکام کے مطابق اس فیصلے کے تحت ماہ جنوری کی تنخواہ میں بنیاد پر ملازمین کے میڈیکل، پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم ایس، ٹرانسپورٹ، ہاؤس رینٹ اور دیگر الاؤنس شامل نہیں ہو گے۔
یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے ملازمین کو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ہر ماہ تقریباََ 26 کروڑ روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
ادھر یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف جامعہ کے اساتذہ کی تنظیم 'یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن' کے ہنگامی اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر فضل ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشاور یونیورسٹی سرکاری ادارہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے تمام تر اخراجات اور مالی ضروریات پوری کرے۔
پروفیسر فضل ناصر نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ اس قدیم تعلیمی ادارے کی مالی مشکلات کے سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ تا کہ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ برقرار رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے قائم پشاور یونیورسٹی میں مالی بحران کا پیدا ہونا باعثِ تشویش ہے۔ کرونا وائرس کی صورتِ حال کے باوجود اساتذہ اور دیگر ملازمین نے اپنے فرائض نہایت احسن طریقے سے انجام دیے۔
رپورٹس کے مطابق پشاور یونیورسٹی کے علاوہ خیبر پختونخوا کی دیگر جامعات کو بھی، جن میں پشاور کی اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی شامل ہیں، مالی بحران کا سامنا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری صادق کمال کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل اس ادارے کا مالی خسارہ 83 کروڑ 70 لاکھ روپے تھا۔ موجودہ وائس چانسلر نے عہدہ سنبھالنے کے فوراََ بعد دعویٰ کیا تھا کہ جامعہ کا خسارہ 38 کروڑ 80 لاکھ روپے رہ گیا ہے۔
صادق کمال کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ بھی بد ترین مالی خسارے اور بحران سے دو چار ہے۔
مالی بحران کی کئی وجوہات
وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و ہائر ایجوکیشن کامران بنگش نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پشاور یونیورسٹی کا موجودہ مالی خسارہ ایک ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جس میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کامران بنگش نے کہا کہ پشاور یونیورسٹی کے علاوہ پشاور ہی کی زرعی یونیورسٹی اور ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کو بھی اسی قسم کے مالی بحران کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ مالی بحران کی کئی ایک وجوہات ہیں جس میں سرِ فہرست پنشن کی ادائیگی ہے، اسی وجہ سے ان اداروں کو بہت زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ان اداروں کو خود مختاری ملنے کے بعد اداروں کے حکام نے بڑے پیمانے پر غیر تدریسی عملہ تعینات کیا ہے اور وسائل بڑھانے پر کم توجہ دی ہے۔
مشیر برائے اطلاعات و ہائر ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ کہ حکومت کبھی بھی ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ برداشت نہیں کر سکتی اور اسی بنیاد پر ان اداروں کی مالی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کامران بنگش کے بقول اب حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مالی تعاون ان اداروں کی کارکردگی سے مشروط ہو گا۔