پاکستان کے متوقع وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں واقع وزیرِ اعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کے اعلان کے بعد وفاقی دارالحکومت کے حلقوں میں ایوانِ وزیرِ اعظم کے مجوزہ استعمال کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
عمران خان نے گزشتہ ہفتے عام انتخابات میں اپنی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی کے بعد اپنی 'وکٹری اسپیچ' میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیرِ اعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کریں گے اور خود منسٹر انکلیو میں رہائش اختیار کریں گے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کو اس سے قبل بھی تعلیمی ادارے میں بدلنے یا پھر عوامی استعمال میں لانے کے اعلانات ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر کبھی عمل نہیں ہوسکا۔
عوامی حلقوں بالخصوص طلبہ نے پی ایم ہاؤس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کے عمران خان کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے آنے والی حکومت کے لیے ایک اچھا آغاز قرار دیا ہے۔
لیکن بعض لوگوں کے خیال میں یہ اتنا آسان کام نہیں ہو گا جتنا بظاہر لگتا ہے۔
اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی کی ایک طالبہ سنینا طاہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ایم ہاؤس کو لائبریری یا پھر کسی تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا جائے تو اس سے ریڈ زون کے علاقے تک عام آدمی کی رسائی ہو جائے گی اور اس سے طلبہ کو ایک مثبت پیغام جائے گا۔
سنینا کے بقول، "اس طرح کی تمام سرکاری رہائش گاہوں پر ماہانہ لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیرِ اعظم کا جو کام ہے وہ زیادہ اہم ہے، نہ کہ رہائش گاہ جہاں سے اس نے کام کرنا ہے۔"
خیال رہے کہ 19-2018ء کے وفاقی بجٹ میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے لیے 98 کروڑ 60 لاکھ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے 'کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی' (سی ڈی اے) کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس آٹھ سو کنال پر مشتمل ہے جس میں وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ اور ان کے اسٹاف کے لیے رہائشی اپارٹمنٹس بھی موجود ہیں۔
اسلام آباد کی کامسیٹ یونیورسٹی کے طالبِ علم معیذ ناصر کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی بیوروکریسی اس طرح کا قدم اٹھانے میں عمران خان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالے گی۔
اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی 1997ء اور 2013ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد پی ایم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کی راہ میں سکیورٹی کے مسائل ان کے آڑے آ گئے تھے۔
خود عمران خان نے بھی 2013ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں اپنی جماعت کی حکومت بننے کے بعد پشاور کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے اس وعدے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ تاریخ کے پروفیسر الہان نیاز کا کہنا تھا کہ پی ایم ہاؤس کی حساس لوکیشن کی وجہ سے اسے کسی پبلک تعلیمی ادارے میں بدلنا بہت مشکل ہو گا لیکن یہاں سول سروس اکیڈمی کی طرح کا کوئی ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے امریکہ کے ایوانِ صدر کا حوالہ دیتے ہوئے تجویز دی کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کو وائٹ ہاؤس کی طرح میوزیم میں بدلا جا سکتا ہے جس سے ان کے بقول "عوام کو ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ انداز دیکھنے کا موقع ملے گا۔"
پروفیسر الہان نیاز کے بقول، "پاکستان بننے کے بعد ہمارے اکثر حکمرانوں نے نو آبادیاتیدور سے بھی زیادہ شاہانہ طرزِ زندگی اپنایا اور عوام کے ٹیکسوں سے محلات نما سرکاری گھر تعمیر کرائے۔"
عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد بنی گالا میں ہی مقیم رہنے کی تجویز کے بارے میں پروفیسر الہان کہتے ہیں کہ "اس صورت میں وزیرِ اعظم کی بنی گالا کی رہائش گاہ کی سکیورٹی اپ گریڈ کرنا ہو گی جو سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ بنے گی۔ اس لیے وزیرِ اعظم کو منسٹر انکلیو میں ہی رہنا چاہیے اور اگر وہ چاہیں تو بنی گالا کی رہائش گاہ کو پارٹی کی سرگرمیوں کے لیے ذاتی خرچ پر چلا سکتے ہیں۔"
عمران خان سے پہلے ان کے پیش رو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے بجائے اسلام آباد میں اپنے نجی گھر میں رہائش کو ترجیح دی تھی لیکن سرکاری امور انجام دینے کے لیے انہوں نے وزیرِ اعظم ہاؤس ہی استعمال کیا تھا۔
وائس آف امریکہ نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے 'کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی' کے چیئرمین عشرت علی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔