پیٹرولیم ڈیلرز کی ہڑتال ختم: معاملہ ہے کیا اور حکومت نے کیا یقین دہانی کرائی ہے؟

فائل فوٹو

پیٹرولیم ڈویژن کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاسوں کے بعد پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہڑتال ختم کر دی جس کے بعد ملک بھر میں پیٹرول پمپس تقریباََ 24 گھنٹے بند رہنے کے بعد کھل گئے۔

حکومت اور ڈیلرز کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن پیٹرول پر 99پیسے اور ڈیزل پر 83پیسے مارجن میں اضافہ کرے گا۔

وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان کی سربراہی میں ہونے والے مشاورتی اجلاسوں کے بعد ایسوسی ایشن نے ہڑتال ختم کر دی یے۔

بیان کے مطابق فریقین نے پیٹرولیم ڈویژن کی پیٹرول کے موجودہ منافع میں 99 پیسے یعنی 3روپے 91پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کے موجودہ مارجن میں 83پیسے یعنی 3روپے 30پیسے فی لیٹر کرنے کی تجویز کو سراہا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈیلرز کے منافع میں اضافہ کی تجویز ماضی میں منافع پر نظرِ ثانی کے حوالے سے ہونے والی تاخیر کا احاطہ کرے گی اور مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے میں ڈیلرز کی مدد کرے گی۔

پیٹرولیم ڈویژن نے ڈیلرز کو یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ موجودہ منافع میں اضافے کی مذکورہ تجویز کے دفاع کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے گی تاکہ پیٹرولیم ڈیلرز کو یہ ریلیف قابل قدر شکل میں مل سکے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام فریقین سمجھتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی اضافی لاگت کو عام صارفین کو منتقل کرنا قابل عمل نہیں ہے تاہم پیٹرولیم ڈویژن نے ڈیلرز کی ایسوسی ایشن کو یقین دلایا کہ جون 2022 سے منافع کو اس وقت مروجہ مہنگائی کے حساب سے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

پاکستان میں پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کی ہڑتال کے باعث ملک بھر میں بیشتر فیول پمپس بند کیے گئے تھے جس کی وجہ سے عام شہری بُری طرح متاثر ہوئے۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ ہڑتال کی آڑ میں کچھ عناصر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ منافع چاہتے ہیں۔

پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ حکومت نے پیٹرولیم منافع میں اضافے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد پانچ نومبر کو ہڑتال مؤخر کی گئی اور 20 روز گزرنے کے بعد بھی جب کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کے خلاف ہڑتال کی گئی۔ پمپ اسٹیشن مالکان کے بقول وہ اس وجہ سے ہڑتال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

وزیرِ توانائی اور پیٹرولیم حماد اظہر کے مطابق ہڑتال کے ذریعے عوام کو پریشان کرنا درست نہیں۔ ہڑتال کرنے والے پیٹرولیم ڈیلرز کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے لیکن ناجائز مطالبات کسی صورت تسلیم نہیں۔

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیٹرول پمپس کی ہڑتال کی آڑ میں کچھ گروہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر نو روپے تک کا اضافہ چاہتے ہیں۔

ان کے بقول پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر پمپ مالکان کے پرافٹ مارجن میں اضافے کی سمری پہلے ہی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی (ای سی سی) کو بھجوا دی گئی ہے جس پر آئندہ اجلاس میں فیصلہ ہو گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بیشتر پمپس بند تھے اور جن پمپ اسٹیشنز پر ایندھن دستیاب تھا وہاں شہریوں کو اس کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

SEE ALSO: پاکستان: ڈیلرز کی منافع بڑھانے کے لیے ہڑتال، کئی شہروں میں پیٹرول پمپس بند

پاکستان پیٹرولیم ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما شعیب خان جی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے رواں برس اپریل میں ایندھن کے منافع میں اضافہ کیا تھا لیکن وہ اضافہ ڈیلرز اور ریٹیلرز کی توقعات سے بہت کم تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیلرز کا مطالبہ ہے کہ پرافٹ مارجن میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کے چھ فی صد تک کیا جائے۔ اس وقت پرافٹ مارجن لگ بھگ تین روپے فی لیٹر ہے۔

'پیٹرول پمپ چلانا مشکل ہو گیا ہے'

شعیب خان نے کہا کہ حکومت نے فی لیٹر منافع کے معاملے پر گفت و شنید کا کہا تھا لیکن اب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ان کے بقول کم مارجن کے ساتھ پیٹرول پمپ چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ مالکان کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو لائسنس اور دیگر حکومتی ٹیکسز کی صورت میں بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی ادارے 'اقبال اسماعیل سیکیورٹیز پاکستان' میں ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف کے مطابق وفاقی حکومت نے 2018 میں ایک پالیسی ترتیب دی تھی جس کے تحت پیٹرولیم ڈیلرز کا مارجن افراطِ زر کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا اور اس پالیسی پر فریقین نے اتفاق کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مذکورہ پالیسی پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی اور ملک میں جس قدر مہنگائی ہوئی اس کے مطابق پیٹرولیم ڈیلرز کے منافع میں اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے بقول حکومت اسی طرز کا ایک معاہدہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری سے بھی کر رکھا ہے جس کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ملک میں افراطِ زر کی شرح بڑھنے یا گھٹنے سے ہوگا۔

ان کے خیال میں یہ پالیسی منطقی لحاظ سے بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہر چیز کی قیمت افراط زر سے منسلک ہے اور اگر کسی خاص شعبے کی قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے تو پھر اس سیکٹر سے منسلک افراد کی آمدنی پر اس کا اثر پڑتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پیٹرول مہنگا ہونے سے مہنگائی بھی بڑھے گی

لیکن بعض دیگر معاشی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمت اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کے باعث قیمتوں میں اضافہ کرچکی ہے۔

اس وقت ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جس سے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اور کرائے بڑھنے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے کہنے پر پیٹرولیم مصنوعات پر چار روپے فی لیٹر لیوی بھی عائد کرنی ہے۔ اس منظر نامے میں فی الحال عالمی مارکیٹ میں اگر قیمتیں کم بھی ہوجائیں، جس کا امکان ابھی انتہائی معدوم ہے، اس کا فائدہ عام شہریوں کو منتقل ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔