یوکرین کا علاقہ باخموت جو کچھ عرصے سے روس اور یوکرین کے درمیان لڑائی کا ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے، نمک کی پیداوار کی وجہ سے یوکرین، یورپ اور خطے کے دوسرے ممالک میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہ شہر لگ بھگ 140 برسوں سے خطے کو نمک فراہم کر رہا ہے۔ روسی فورسز کے خلاف شدید مزاحمت دکھانے والے اس شہر کا نمک اب ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
روس کئی ہفتوں سے یوکرینی افواج کو باخموت شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ماسکو باخموت کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔
باخموت سے 18 کلومیٹر دور سولیدار کا قصبہ بھی روس کی توجہ کا مرکز رہا ہے اوراپنی نمک کی بڑی کانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔یوکرینیوں کے لیے ’’راک سالٹ‘‘ یا عام خوردنی نمک ملک کی معروف علامتوں میں سے ایک ہے۔اور وہ ہے سولیدار سالٹ کی پیکجنگ پر (بنا ہوا ) ڈیزائن۔
یہ نمک ، یوں سمجھیئے کہ یوکرین ہی کا مترادف ہے اور کئی دہائیوں سے اسے تبدیل نہیں کیا گیا۔لیکن آج جنگ کے دوران یہ پیکیجنگ آرٹسٹ اولیکزینڈر وائیٹووچ کے لیے ایک کینوس کی طرح ہے۔
اولیکزینڈر وائیٹووچ کہتے ہیں کہ ’’میرے لیے نمک ہمیشہ یوکرین کے ساتھ مربوط رہا ہے۔ اور میں نے اسے بطور آرٹ آبجیکٹ استعمال کیا۔ اور اب میں اس تصور کو استعمال کروں گا جو جنگ شروع ہونے کے بعد نئے مفہوم کا حامل ہو گیا ہے‘‘ ۔
نمک کی پیداوار کے لیے سرکاری صنعتی ایسوسی ایشن آرٹیمسل جنگ سے پہلے 90 فیصد پیداوار کی ذمہ دار تھی جس نے یوکرین کے خوردنی نمک کو 15 دوسرے ملکوں میں برآمد کیا۔
سولیدار میں نمک کی پیداوار 1881 میں شروع ہوئی لیکن اپریل 2022 میں یہ روسی افواج کی طرف سے پلانٹ پر مسلسل گولہ باری کی وجہ سے رک گئی۔ تقریباً 25 سو ملازمین کی نوکریاں ختم ہو گئیں اوریوکرین نمک کی پیداوار سے محروم ہو گیا ۔
جب تک نمک دستیاب تھا، وائیٹووچ نے پیکج پر تصویریں بنائیں ۔ان کی ایک تخلیق پہلے ہی واشنگٹن کے میوزیم میں لائی جا چکی ہے۔
مورا شیلڈن کا تعلق کانگریشنل آفس فار انٹرنیشنل لیڈر شپ سے اور ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک عام مواد ہے۔ لیکن ایک ایسا مواد جو میرے خیال میں بیشتر عام یوکرینیوں کے گھر میں ہو سکتا ہے۔ یوکرین میں میرا قیام تین سال کا تھا اور میرے پاس نمک کا ایسا ہی ڈبہ تھا‘‘۔
SEE ALSO: یوکرین پر روس کا حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے : انتونیو گوتریسوایٹووچ اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی اس غیر معمولی کینوس کی طرف متوجہ رہے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں90 کی دہائی کے اوائل میں اکیڈمی آف دی آرٹس میں زیر تعلیم تھا ۔اور ہمارے پاس کاغذ سمیت ہر چیز کی کمی تھی۔ جن طلباء کوتصاویربنانے کی ضرورت تھی وہ کسی بھی عام مواد کی تلاش میں تھے۔ہم نے چارکول کے ساتھ بھی اس کا تجربہ کیا۔
جنگ کے پہلے سال کے اختتام کے موقع پر آرٹیمسل نمک کے آخری ڈبوں کو حال ہی میں پیک کرکے’’ یکجہتی‘‘ کے نام کے تحت فروخت کیا گیا ہے ۔ اس پر تحریر ہے ’’یکجہتی: سب کے لی،ے یوکرینی چٹان کی طرح مضبوط‘‘ ۔
اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے یوکرین کی فوج کے لیے ڈرون خریدنے میں مدد ملتی ہے۔
وی او اے نیوز