پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اکیس رکنی مشاورتی کونسل قائم کی ہے جو انہیں اقتصادی امور میں پالیسی سازی کے لیے سفارشات دے گی۔
اس کونسل کے قیام کا نوٹیفیکیشن حکومت پاکستان کے فائنانس ڈویژن کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کیا گیا ہے۔
اس کونسل کی صدارت وزیراعظم کریں گے۔ اس کے ممبران میں ، اخباری اطلاعات کے مطابق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سلیم مانڈوی والا، وزیر اطلاعات مریم اورانگزیب، ڈاکٹر عائشہ غوث، مصدق ملک، طارق پاشا، میاں محمد منشا، عارف حبیب، ڈاکٹر عاصم حسین جیسے نمایاں نام شامل ہیں۔ میڈیا فہرست میں اس مشاورتی کونسل میں عاطف باجوہ، فیصل فرید، اورنگزیب (ایج بی ایل) وقار احمد ملک، سلمان احمد، شہزاد سلیم، رحمن نسیم، مصدق ذولقرنین اور ڈاکٹر اعجاز نبی کے نام بھی شامل ہیں۔
کونسل کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
نوٹیفیکیشن کے مطابق کونسل کے ٹرمز آف ریفرنس میں ملک کی جاری معاشی صورت حال کا معائنہ کر کے جاری معاشی پالیسیوں پر غور اور نئی پالیسیوں کی تجویز دینا شامل ہے۔ اس کے علاوہ کونسل قلیل مدتی میکرو سطح پر معاشی استحکام کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ ملک کی قومی معاشی صورت حال پر گفتگو کے لیے یہ کونسل ہر ہفتے اپنا اجلاس مرتب کرے گی۔
SEE ALSO: وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دورۂ سعودی عرب: 'مالی معاونت مسائل کا مستقل حل نہیں'نوٹیفیکیشن کے مطابق اس کونسل کے کام کی نوعیت میں معاشی صورت حال کا جائزہ اور مالی وسائل کو دیکھتے ہوئے سفارشات مرتب کرنا، جاری سبسڈیز کا جائزہ اور ان کے فوائد اور نقصانات کا تجزیہ کرنا، ملک کے اہم معاشی سیکٹرز کی منڈیوں کی کارکردگی کا جائزہ، حکومتی وزارتوں کے ساتھ مشاورت کرنا شامل ہے۔
اپنے کام کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے کونسل ہر طرح کی تکنیکی اور انسانی مدد حاصل کر سکتی ہے۔ نیز اس کے سٹرکچر میں ذیلی کمیٹیوں کا قیام بھی شامل ہے۔ کونسل میں مستقبل میں مزید ارکان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
معاشی ماہر اور ماضی میں اس طرح کی کونسل کا ممبر رہنے والے ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس طرح کی کونسلز بنانے کا مقصد پیشہ ورانہ ان پٹ لینا ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات لیکن پاکستان کے اندر ماضی میں اس طرح کی کونسلوں کا فائدہ نہیں دیکھا۔ بقول ان کے ایسی کونسل میں مشورہ دیا جاتا ہے لیکن اس پر کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی اس طرح کی کونسلز میں تاجر موجود رہے ہیں لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے خارجہ امور اور معیشت پر مشاورتی کونسل بنائی۔ خارجہ تعلقات پر مشاورتی کمیٹی کا اجلاس تو ان کے بقول ایک تواتر سے جاری رہا لیکن معاشی مشاورتی کمیٹی کو اہمیت نہیں دی گئی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے بتایا کہ ان کو حکومت کی نئی اقتصادی مشاورتی کمیٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئ لیکن انہوں نے بوجوہ معذرت کر لی۔
امریکہ کی شکاگو یونیو رسٹی سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہر ڈاکٹر ظفر بخاری نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اس کونسل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کونسل میں زیادہ تر سیاستدان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی کمیٹیوں میں معیشت کو پڑھانے والے اور پریکٹسنگ معیشت دان موجود ہونے چاہئیں۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا، کڑوی گولی کھانا پڑے گی: وزیرِ خزانہموجودہ کونسل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کتنے عرصے تک یہ کونسل برقرار رہے گی۔
ان کے بقول اگر مستقبل قریب میں نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو پھر یہ کونسل بھی ختم ہوجائے گی تو ایسی صورت اس کونسل کا فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت جب بھی آتی ہے تو وہ پچھلی پالیسیاں جاری رکھنے کے بجائے نئی پالیسیاں بناتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایکسپریس ٹریبیوں کے معاشی امور کے نمائندہ اور ٹی وی اینکر شہباز رانا نے بھی دیگر معاشی ماہرین سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسے فورم عام طور پر ان ممبران کی جانب سے مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ کونسل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اکثر ممبران کا تعلق یا تو حکومت سے ہے یا جنہیں موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ملک کے ارب پتی کلب سے تعلق رکھنے والے کچھ ممبران ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کونسل پر انہیں یہی اعتراض ہے کہ اسے بھی اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی تین اقتصادی مشاورتی کونسلز بنائی تھیں لیکن ان کی تجاویز پر بھی کام نہیں کیا گیا۔