امریکہ اور چین سے ایک ساتھ تعلقات رکھنا پاکستان کے لیے کتنا مشکل؟

فائک فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا اقتصادی مستقبل چین کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بہت اچھے ہیں۔ کیوں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن افغانستان میں امن کے شراکت دار ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کا 'الجزیرہ نیوز' کو دیا گیا ایک انٹرویو جمعرات کو نشر ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کسی ایک کیمپ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کو مدِنظر رکھتا ہے اور پاکستان بھی سب کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اس تاثر کو رد کیا کہ ان کی حکومت چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کے متعلق بیجنگ کے ساتھ دوبارہ بات چیت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اقتصادی مستقبل چین کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیوںکہ ان کے بقول کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں چین تیزی سے اقتصادی ترقی کر رہا ہے۔

وزیرِ اعظم نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ سی پیک پر واشنگٹن کے تحفظات کی وجہ سے پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت پر استوار کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات چند سال پہلے کی نسبت بہترین ہیں کیوںکہ ان کے بقول پاکستان افغانستان میں امن کے معاملے میں امریکہ کا شراکت دار ہے۔

یاد رہے کہ ایک طرف پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے، جسے امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات بھی بہت گہرے ہو رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی پاکستان کے لیے چیلنج بن سکتی ہے کہ وہ دونوں ملکوں سے اپنے سفارتی روابط میں توازن کیسے برقرار رکھے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ اگرچہ دونوں ملکوں سے تعلقات میں برابری رکھنا ایک چیلنج ہے، لیکن اسلام آباد ہمیشہ دوسری عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

شمشاد احمد خان کے بقول اگرچہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دنیا میں ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لیکن قیام پاکستان سے ہی اسلام آباد کے لیے بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود پاکستان نے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ خطے میں مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تعاون جاری رہنا ضروری ہے۔

زاہد حسین کے بقول نائین الیون کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اگرچہ بہت قریبی رہے ہیں، لیکن ان تعلقات کا ایک مخصوص پسِ منظر تھا۔ ان کے مطابق یہ تعلقات کسی بھی طرح سے اسٹرٹیجک نوعیت کے نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ کیوںکہ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن مں افغانستان کا معاملہ بھی شامل ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے دونوں ملکوں کا باہمی تعاون جاری رہے گا۔

تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ بعض معاملات میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ہونے والی تبدیلیوں کا تعلق سی پیک یا چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات سے نہیں ہے۔ بلکہ ان کے بقول اس کی وجہ خطے میں امریکہ کی ترجیحات کا تبدیل ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور ہر ملک کے خارجہ تعلقات اپنے اپنے مفادات کے پیشِ نظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سی پیک کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کے تحت چین نے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے کئی منصوبے مکمل کیے ہیں۔ لیکن امریکہ ان منصوبوں کی شفافیت سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

امریکہ کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت پر بوجھ بن سکتے ہیں، لیکن پاکستان اور چین اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔

امریکی عہدے دار یہ بھی واضح کرتے رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تجارت اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔