حکومتِ پاکستان کی معاشی تعاون کی کمیٹی (ای سی سی) نے ’’غیر ضروری اور پرتعیش مصنوعات‘‘ پر رواں برس مئی کے مہینے میں لگنے والی پابندی ہٹا لی ہے۔
البتہ گاڑیاں، موبائل فون اور الیکٹرونک مصنوعات پر پابندی برقرار رہے گی۔
یہ فیصلہ جمعرات کو وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت کابینہ کے ای سی سی اجلاس کے دوران کیا گیا۔
انگریزی روزنامہ'ڈان' کی ایک رپورٹ کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ درآمدی پابندی کی بدولت ان اشیا کے درآمدی بل میں 20 مئی سے 19 جولائی تک 70 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اشیا کا درآمدی بل اس دوران تقریباً 40 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر محض 12 کروڑ 39 لاکھ ڈالر تک محدود ہوگیا ہے۔
SEE ALSO: 'معیشت کو بچانے کے لیے حکومت نے بہت بڑی قیمت ادا کی'اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے کلیدی اصلاحات کے شعبے (پاکستان اسٹرٹیجک ریفارمز ) کے سربراہ سلمان صوفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ سے پاکستان کے لیے برآمدات اگلے چند دونوں میں ختم کر دی جائے گی۔
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر آنے والے سلمان صوفی نےبتایا کہ"اس (برآمدات ) میں اہم مسئلہ اُن کمپنیوں کا زیادہ ہے جن کی مصنوعات پہلے ہی امریکہ سے پاکستان پہنچ چکی ہیں تو وہ انہیں ریلیز کرانا چاہتے ہیں۔"
ان کے بقول "یہ پابندی اگلے ایک دو ہفتے میں ختم کر دی جائے گی جب کہ یہ پالیسی صرف امریکی کمپنیوں کےلیے ہی نہیں بلکہ تمام بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے بھی ہے جو پاکستان میں کاروبار کر رہی ہیں۔"
سلمان صوفی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر پروفیشنل خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبوں کو بھی بحال کیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: معاشی بدحالی اور روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا؟خیال رہے کہ گزشتہ بدھ کو پاکستان میں امریکہ کے نئے سفیر ڈونلڈ بلوم نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے لگژری اشیا کی درآمد پر عائد پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے کاروباری برادری کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت نے ملک کو درپیش مالی بحران کے پیشِ نظر زرِمبادلہ بچانے کے لیے غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ان اشیا میں سگریٹ, چاکلیٹ، جوسز اور جانوروں کی خوراک بالخصوص 'ڈاگ اینڈ کیٹ فوڈ' بھی شامل تھیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفارت خانہ میں جمعرات کی شام پریس کانفرنس کے دوران سلمان صوفی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں پاکستان نے درخواست کی ہے کہ امریکی شعبہ زراعت کے انسپکٹر کراچی پورٹ پر تعینات کیے جائیں تاکہ برآمدات کی رفتار میں تیزی آئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے وہ اشیا جن کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، انہیں امریکہ کے شہر ہیوسٹن سے دیگر امریکی شہروں میں پہنچانے کے بجائے براہِ راست مطلوبہ شہروں میں بھجوایا جائے۔
سلمان صوفی نے بتایا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باوجود جو بھی حکومت اقتدار میں آئی اور اسے پرانی حکومت کے ڈیجیٹل بینکنگ اور خواتین سے متعلق پروجیکٹس ختم نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت بننے کے فوری بعد فیصلہ کیا تھا کہ وہ افغان شہری جو کسی دوسرے ملک کے لیے ویزے کی درخواست دے چکے ہیں مگر قانونی یا غیر قانونی طور پر پاکستان میں ہیں، انہیں پاکستان کے ٹرانزٹ ویزے کی بھی درخواست دینا ہو گی جسے وزارتِ خارجہ 24 گھنٹوں کے اندر منظور کر لے گی۔ واضح رہے کہ کابینہ اس پالیسی کی منظور ی دے چکی ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف، سعودی عرب سے پاکستان کو قرض ملنے کی ضمانت کیوں چاہتا ہے؟سلمان صوفی کے بقول "ہم نے ویمن آن ویلز یعنی پیشہ ور خواتین کو اسکوٹر دینے کا پروگرام بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں خواتین پولیو ورکز اور خواتین اساتذہ کو کم نرخوں پر اسکوٹیز دی جائیں گی۔ یہ حکومت کا انقلابی اقدام ہے جس کا مقصد خواتین کو بااختیار اور ان کے روزہ مرہ سفر کو آسان بنانا ہے۔" انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام نومبر میں باقاعدہ طور پر فعال ہو جائے گا۔
ان کے بقول بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے نظام میں سرخ فیتہ کلچر ختم کیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاروں کو دقت نہ ہو۔ان کے بقول بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں بینک اکاونٹ کھولنے کا نظام آئن لائن کیا جارہا ہے تاکہ بائیو میٹرکس کی ضرورت نہ پیش آئے۔