"ایئر لفٹ کی ناکامی کی وجہ ان کا اپنا بزنس ماڈل تھا۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ ایئر لفٹ کے فیل ہونے سے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں مسائل آئیں گے۔ ایئر لفٹ ایک ہائی پروفائل اسٹارٹ اپ ضرور تھا لیکن وہ کسی بھی طرح ملک کا سب سے اہم یا بڑا اسٹارٹ اپ نہیں تھا۔"
یہ کہنا ہے پاکستانی جاب پورٹل 'روزی ڈاٹ پی کے' کے بانی اور ایئر لفٹ کے شیئر ہولڈر مونس رحمان کا جو پاکستان میں 'دکان ڈاٹ پی کے' سمیت کئی اسٹارٹ اپس کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
حال ہی میں ایئر لفٹ نے پاکستان سے اپنے آپریشنز مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیاتھا اور اس کی وجہ عالمی کساد بازاری اور کیپیٹل مارکیٹوں میں حالیہ مندی کو قرار دیا تھا۔
وین سروس 'سوول' پاکستان میں اپنے انٹرا سٹی آپریشنز معطل کر چکی ہے جب کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی آن لائن خرید و فروخت کرنے والے اسٹارٹ اپ 'واوا کارز' نے پاکستان سے اپنے آپریشنز ختم کر دیے ہیں۔ اسی طرح 'کریم' نے بھی اپنی فوڈ ڈلیوری بند کر دی ہے۔
مونس رحمان کہتے ہیں کسی اسٹارٹ اپ کے بند ہونے سے پاکستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم پر اس کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہونے چاہئیں کیوں کہ ہر ایکو سسٹم میں ہزاروں اسٹارٹ اپس ہوتے ہیں جن میں سے 90 فی صد ناکام ہوتے ہیں۔
ان کے خیال میں ایئر لفٹ کی بندش کی وجہ سرمایہ کاری کا ختم ہونا بھی تھا۔ ان کے بقول نئے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کرنے سے انکار کر دیا تھاجس کی وجہ سے ایئر لفٹ کو ہر ماہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
واضح رہے کہ ایئر لفٹ نے ابتدائی طور پر پاکستان کے بڑے شہروں میں موبائل ایپلی کیپشن کے ذریعے ٹرانسپورٹ سروس کا آغاز کیا تھا جسے بعد ازاں بند کر کے ڈلیوری سروس شروع کر دی تھی۔
ایئر لفٹ کو پاکستان میں اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کا رول ماڈل کہا گیا تھا جس نے 2019 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ٹھیک اسی سال جس میں عالمی وبا کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا۔
ایئر لفٹ پچھلے سال اگست میں آٹھ اعشاریہ پانچ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی جو کہ نہ صرف پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ حاصل کردہ سرمایہ کاری تھی بلکہ مینا ریجن میں بھی سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی۔
مونس رحمان کہتے ہیں عالمی اور مقامی معیشت کے موجودہ حالات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ ہائی گروتھ والے اسٹارٹ اپس میں بھی سرمایہ کاری کریں۔ اس وقت مارکیٹ میں چوں کہ کیش کا مسئلہ ہے اور سرمایہ کار پیسہ نہیں دے رہے۔ جس کی وجہ سے ایئر لفٹ اگلی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
پاکستان میں اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے بانی سمجھے جانے والے ڈاکٹر عمر سیف کا ایئر لفٹ کی بندش کی وجوہات بتاتے ہوئے فیس بک پوسٹ میں کہنا ہے کہ اسٹارٹ اپس عالمی رجحانات کی پیروی نہ کریں۔ پاکستان میں 9 لاکھ سے زائد گروسری اسٹورز ہیں، عملی طور پر ہر گلی کے کونے میں ایک۔ ان کے بقول چند آن لائن اسٹورز لوگوں کے گروسری خریدنے کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
ایئر لفٹ کی بندش پر عمر سیف کا مزید کہنا ہے کہ سرمایہ کاری مضبوط کاروباری ماڈل کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ سال 2021 میں ایئر لفٹ کی مجموعی آمدنی 33 ملین ڈالر سے زائد تھی جب کہ خالص مارجن 8 لاکھ ڈالر سے کم تھا جو کہ دو اعشاریہ پانچ فی صد سے بھی کم بنتا ہے۔
عمر سیف کے مطابق گلی کے کونے پر قائم اسٹور کا پروفٹ مارجن بھی کم از کم 10 فی صد ہوتا ہے۔
پاکستان میں اسٹارٹ اپس کی موجودہ صورت حال
پاکستان میں اسٹارٹ اپس کو اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، عالمی کساد بازاری، مقامی سطح پر غیر یقینی صورتِ حال، سرمایہ کاری فراہم کرنے والوں کی کمی، محدود غیر ملکی سرمایہ کاری اور فرموں کو آپریشنز محدود کرنے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی)کے چیئرمین علی سرفراز حسین کے مطابق ان تمام چیلنجز کے باوجود رواں سال میں اسٹارٹ اپس اب تک 27 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری حاصل کر چکے ہیں جب کہ پچھلے سال اسٹارٹ اپس نے 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی تھی۔
ایئر لفٹ بندش کے پاکستانی اسٹارٹ اپس پر اثرات
علی سرفراز حسین کا کہنا ہےکہ کسی بھی اسٹارٹ اپ میں سرمایہ کاری کرنے والے تین چیزیں دیکھتے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کے بانی، ان کی اہلیت و تجربہ اور مارکیٹ میں کاروبار کا موقع۔ جب کہ پاکستان کی مارکیٹ میں یہ سب دستیاب ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کہ ایئر لفٹ کے بند ہونے سے پاکستانی اسٹارٹ اپس پر شارٹ ٹرم اثرات تو آئیں گے لیکن ممکن ہے کہ ایئر لفٹ کے بانی نئے آئیڈیا کے ساتھ دوبارہ آئیں اور کامیاب ہو جائیں۔
مونس رحمان کے خیال میں ایئر لفٹ کی بندش سے پاکستانی اسٹارٹ پس پر اس کے اثرات نہیں پڑیں گے کیوں کہ پاکستان میں سینکڑوں اسٹارٹ اپس ہیں جو سرمایہ کاری حاصل کرتے ہوئے ترقی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک اسٹارٹ اپس کے بند ہونے سے وینچر کیپیٹلسٹس (سرمایہ کار) رکتے نہیں۔ پچھلے دو سے تین سالوں میں پاکستان میں وینچر کیپیٹل (سرمایہ کاری) بہت سست ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اسٹارٹ اپس جو مزید سرمایہ کاری حاصل کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک منافع میں نہیں آ سکے، ان کے بقول ان اسٹارٹ اپس کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری طرف عمر سیف کا کہنا ہے کہ اسٹارٹ اپس کو اپنے بانیوں کے ذریعے چلانے کی ضرورت ہے نہ کہ وینچر کیپیٹلسٹ (سرمایہ کاروں) کے ذریعے۔
کرونا کے ای کامرس پر اثرات
مونس رحمان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے دوران پاکستان سمیت دنیا بھر میں ای کامرس میں بہت ترقی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرمایہ کاروں نے وبا کے دوران کوئی خرچے نہیں کیےاس لیے اُن کے پاس سرمایہ موجود تھا۔ اسی وجہ سے جب لاک ڈاؤن ختم ہوئے تو بہت ساری سرمایہ کاری آئی۔
ان کا کہنا تھا کرونا کے بعد بھی سمجھا جا رہا تھا کہ لوگوں کو آن لائن آرڈر کرنے کی اب عادت ہو گئی ہے جو آگے بھی چلے گی لیکن یہ اندازے غلط ثابت ہوئے اور کرونا کے بعد ای کامرس کی گروتھ تو ہو رہی ہے لیکن اس کی رفتار ویسی نہیں ہے جیسی کہ کرونا کے دور میں تھی۔
مونس کے خیال میں ایسے بزنس ماڈل جس میں بہت سارا سرمایہ درکار ہوتا ہے وہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں رہا۔
عالمی کساد بازاری کے اسٹارٹ اپس پر اثرات
چیئرمین پی آئی ٹی بی علی سرفراز حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے اسٹارٹ اپس کو سرمایہ کاری کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں شرح سود بڑھ رہے ہیں اور ہر سرمایہ کار کی کوشش ہے کہ وہ محفوظ سرمایہ کاری کرے۔ ان کے بقول اس وقت دنیا بھر میں افراط زر بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے کیپیٹل کی دستیابی کم ہوئی ہے۔
مونس رحمان کے مطابق عالمی کساد بازاری کے نہ صرف پاکستان کے اسٹارٹ اپس پر بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے اسٹارٹ اپس پر بھی اثرات ہو رہے ہیں جب کہ ان کے مطابق موجودہ سیاسی صورت حال پاکستانی اسٹارٹ اپس میں ہونے والی سرمایہ کاری میں کمی کی دوسری بڑی وجہ بن سکتی ہے۔
عالمی کساد بازاری کے اثرات پر علی سرفراز کا کہنا ہے کہ عالمی بینک چوں کہ شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں تاکہ لوگ اخراجات نہ کریں جس کی وجہ سے افراط زر کم ہو لیکن اس کے اثرات اسٹارٹس اپ پر پڑِیں گے جس کے سبب سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔
مونس رحمان کا کہنا تھا کہ ایئر لفٹ جیسے اسٹارٹ اپس جنہیں بھاری انفرا اسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ ان کو سرمایہ کاری کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ انفرا اسٹرکچر بنانے میں بہت سرمایہ لگتا ہے۔ عالمی سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے ایسے اسٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں مشکلات درپیش آئیں گی۔
کس قسم کے اسٹارٹ اپس کے لیے حالات سازگار ہیں؟
مونس کا کہنا ہے کہ جب مقامی معیشت کو چیلنجز درپیش ہوں تو ایسے اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری ہوتی ہے جو آن لائن ٹولز، سوفٹ ویئرز اور سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جن کے استعمال سے کمپنیوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔