برطانوی عدالت کی جانب سے پاکستان میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور اُن کے اہلِ خانہ کو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے الزامات سے 'کلین چٹ' دینے کا معاملہ پاکستان میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اسے عمران خان کے کرپشن بیانیے کی شکست قرار دے رہی ہے جب کہ وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر اور احتساب اور اثاثہ جات کے بازیابی یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ برطانوی عدالت نے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری نہیں کیا۔
خیال رہے کہ پیر کو برطانیہ کی ویسٹ منسٹر عدالت نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ان کے منجمد اکاؤنٹ نیشنل کرائم ایجنسی کی درخواست پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نے 'این سی اے' سے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی دولت سے بنائے گئے اثاثے پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے اس سے تعاون کرے، تاہم تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ تاثر دیا گیا کہ شہباز شریف مقدمے سے بری ہو گئے ہیں جو سراسر غلط ہے جب کہ ان کے خلاف ابھی پاکستان میں بھی کئی کیسز زیرِ سماعت ہیں۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ اس یونٹ کی کارکردگی اب تک بہت مایوس کن رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے جو بھی وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ کوئی ریکوری نہیں ہوئی، کوئی اثاثے اور لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آئی۔
کیا اپوزیشن کا بیانیہ مضبوط ہوا؟
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت شور بہت زیادہ مچاتی ہے اور کوئی بھی معاملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی شور مچا دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے تاثر یہ ملتا ہے کہ سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنا تاثر حکومت خود خراب کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں شہباز شریف کو ریلیف ملا ہے اور حکومت کو یہ علم ہی نہیں کہ اس میں اپیل نہیں کی جا سکتی لیکن حکومتی وزرا بیانات دے رہے ہیں۔ یہاں ہر وزیر کو ہر معاملے پر بولنے کی اجازت ہے۔
'ہمارے لوگ باہر کی عدالتوں پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں'
مظہر عباس کے بقول حکومت کو اس بارے میں اپنی پالیسی پر غور کرنا چاہیے کہ جن معاملات پر انہیں بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انہیں وہ کس طرح درست کر سکتی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس معاملہ سے شہباز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے، باہر کی عدالتوں پر لوگ زیادہ اعتبار کرتے ہیں، وہاں کسی اخبار میں اگر خبر چھپ جائے تو اسے معتبر سمجھا جاتا ہے، اب وہاں کی ایجنسی کی طرف سے تفتیش ان کے حق میں آئی ہے تو ان پر منی لانڈرنگ کا لگا ہوا داغ دھل گیا ہے جس کا انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہوگا۔
شہباز شریف کے خلاف کیس کیا تھا؟
یہ کیس برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے قائم کیا تھا جو مبینہ طور پر پاکستان کے اثاثہ جات بازیابی یونٹ کی درخواست پر عدالت لایا گیا تھا۔ جج نے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے حکم کو اس وقت ختم کیا جب برطانیہ کی اینٹی کرپشن ایجنسی (این سی اے) نے یکطرفہ طور پر شہباز شریف اور سلیمان شریف کے خلاف دو سال طویل ہائی پروفائل تحقیقات کے نتائج عدالت کے سامنے رکھے۔
'این سی اے' کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان، برطانیہ اور دبئی کے دائرہ کار میں منی لانڈرنگ یا مجرمانہ طرزِ عمل کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
شہباز شریف اور سلیمان شہباز کے خلاف عدالتی حکم کے بعد 17 دسمبر 2019 کو بینک اکائونٹس منجمد کر دیے گئے تھے۔
حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقات برطانیہ نے خود کی تھیں۔ البتہ برطانوی حکومت کی درخواست پر انہوں نے اس کیس میں برطانیہ کی صرف معاونت کی تھی۔
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
اسلام آباد میں آن لائن نیوز کانفرنس میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی عدالت کے فیصلے میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ سے بری ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ تاثر یہ دیا گیا کہ شہباز شریف مقدمے سے بری ہو گئے ہیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی شک کی بنا پر کسی کا بھی اکاؤنٹ ایک سال کے لیے منجمد کر سکتی ہے۔
اُن کے بقول ستمبر 2019 میں ذوالفقار اور سلیمان کے اکاؤنٹ منجمد کرنے کا حکم آیا، اثاثے منجمد کرنے سے متعلق حکم نیشنل کرائم ایجنسی نے ممنوعہ ٹرانزیکشن پر دیا تھا۔ جب غیر قانونی ٹرانزیکشن ہوئیں تو کرائم ایجنسی نے پاکستان سے رابطہ کیا جس کے جواب میں پاکستان سے کچھ نام بھی شیئر کیے گئے، برطانیہ نے اس حوالے سے جو سوال پوچھا ہم نے اس کا جواب دیا۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ عدالت لندن کا دو صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ 10 ستمبر کو آیا تھا، فیصلے میں کسی جگہ پر بھی شہباز شریف کا نام نہیں تھا۔ اس فیصلے میں شہباز شریف کے منی لانڈرنگ سے بری ہونے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ان کے خلاف برطانیہ میں کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا تھا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ پاکستان کی عدالت سے آنا ہے، ان پر مقدمہ چل رہا ہے جس میں گواہان کے بیانات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی لندن کورٹ میں مقدمے سے بریت کی غلط خبر چلائی گئی۔ اس حوالے سے حقائق توڑ مروڑ کر جعلی بیانیے گھڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم نے وکلا سے رابطہ کیا ہے کہ کیا قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔