رسائی کے لنکس

شہباز شریف نے قومی حکومت کے قیام کی تجویز کیوں دی؟


پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی جانب سے قومی حکومت کے قیام کی تجویز پر ملک میں ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے شہباز شریف کی اس تجویز کو مسترد کیا ہے، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک موجودہ حالات میں شہباز شریف کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے قومی حکومت کے قیام کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب سیاسی تحریک کے ذریعے حکومت کو گرانے کے بجائے عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔

شہباز شریف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان افغانستان کی پیدا شدہ بحرانی صورتِ حال میں داخلی و خارجی سطح پر خطرات محسوس کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ کراچی کے دوران صحافیوں سے گفتگو کے دوران قومی حکومت سے متعلق گفتگو کی تھی۔

'قومی حکومت کی تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی'

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل نگران حکومت کا قیام آئینی ضرورت ہے جو حکومت و اپوزیشن کے اتفاق رائے سے تشکیل پائے گی تاہم اس وقت قومی حکومت کی تجویز معنی خیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی حکومت کے قیام کے لیے لازمی ہے کہ موجودہ حکومت ختم ہو اور تمام سیاسی جماعتیں نئی حکومت میں شامل ہوں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے قومی حکومت کے قیام کے بیان پر حکومت و حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کی جانب سے ردِعمل زیادہ مثبت نہیں آیا اور لگتا ہے کہ اس تجویز کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے آئندہ عام انتخابات کے بعد قومی حکومت کے قیام کی بات کی تھی نہ کہ موجود حکومت کو ختم کر کے نئی متفقہ حکومت بنانے کا کہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے کراچی میں صحافیوں سے جو گفتگو کی میں اس وہ بھی شریک تھے اور انہوں نے اپنی بات چیت کے آخر میں کہا کہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ جو بھی جماعت اگلے الیکشن میں کامیاب ہو تو ملک کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے قومی حکومت بنائی جانی چاہیے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کے حامی رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ انہوں نے سوچا ہو کہ قومی حکومت کے قیام کی بات چھیڑ کر اس پر دیگر جماعتوں کا ردِعمل دیکھا جائے۔

حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ (ن) نے اپنے پارٹی صدر کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے۔ نائب صدر مریم نواز نے شہباز شریف کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قومی حکومت نہیں بلکہ قومی مفاہمت کی بات کی تھی۔

دیگر سیاسی جماعتوں کا ردِعمل

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی شہباز شریف کے بیان پر تنقید کی گئی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کی قومی حکومت کی تجویز 'اپنے آپ کو بچانے کی کوشش ہے۔'

حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیر بخاری نے اس بیان کو 'بے وقت کی راگنی' اور شہباز شریف کی خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

'شہباز شریف، حکومت کا خاتمہ یا ان ہاؤس تبدیلی نہیں چاہتے'

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز اپنے بیانات کے لیے وقت کا انتخاب کرتے ہیں وہ کوئی بات کرتے ہیں اور کچھ عرصہ خاموش رہتے ہیں جو کہ حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے قومی حکومت کے قیام کے بیان سے دراصل افغانستان کی صورتِ حال سے نمٹنے کا حل دیا ہے لیکن اسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی نہ حکومت کی طرف سے نہ اپوزیشن کی جانب سے بلکہ ان کی اپنی جماعت نے بھی اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے آئین میں قومی حکومت کے قیام کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس بیان کے وقت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شہباز شریف کسی تحریک کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے اورنہ ہی وہ ان ہاؤس تبدیلی کی طرف جانا چاہتے ہیں بلکہ آئندہ انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اہم قومی رہنما ہیں اور ان کے بیان پر ردِعمل تو آنا ہی تھا اور ان کی نظر میں یہ بیان دینے کا مقصد بھی یہی تھا تاکہ پر ردِعمل کا اندازہ لگایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جانتے تھے کہ ان کے اس بیان پر مختلف آرا آئیں گی اسی لیے انہوں نے واضح کر دیا کہ یہ اُن کی ذاتی رائے ہے۔

XS
SM
MD
LG