وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کا رویہ مسلم لیگ (ن) کے لیے متعصبانہ ہے۔
بدھ کو جاری ایک بیان میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمے میں نگران جج رہے ہیں۔ ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی ایک آڈیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی آڈیو لیک کا ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آچکا ہے اور ان کی غیرجانب داری پر سوال اٹھ چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں جج سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف سے متعلق کئی مقدمات میں مخالفانہ فیصلے دے چکے ہیں جن میں پاناما لیکس، پارٹی لیڈرشپ، پاک پتن الاٹمنٹ کیس، رمضان شوگر ملز کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کو نواز شریف اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں سے الگ ہونے کا کہے گی۔ قانون اور عدالتی روایت ہے کہ متنازع جج متعلقہ مقدمے کی سماعت سے خود کو رضا کارانہ طور پر الگ کر لیتے ہیں۔
وزیرِ داخلہ کے مطابق دونوں ججوں سے کہا جائے گا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مقدمات نہ سنیں۔ متاثرہ فریق کی درخواست پر بھی متنازع جج بینچ سے الگ کر دیے جانے کی روایت ہے۔
SEE ALSO: آڈیو اور ویڈیو لیکس معاملہ؛ عمران خان کا سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہرانا ثناءاللہ کا سپریم کورٹ کے ججز سے متعلق بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب منگل کو ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس اجلاس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو اعلیٰ عدالت کے متعصب جج قرار دیا گیا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم کی مشاورت سے مستقبل کی حکمتِ عملی پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن اعلیٰ عدلیہ میں سنیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں اور آئندہ برس اکتوبر میں وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس ستمبر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ پر چیف جسٹس بننا ہے۔
حالیہ دنوں میں مسلم لیگ (ق) سے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے سیاسی رہنما اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کی جسٹس مظاہر علی نقوی سے مبینہ گفتگو کی ایک آڈیو سامنے آئی تھی۔
یہ آڈیو سامنے آنے کے بعد پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کی سیاسی رہنما سے فون پر گفتگو سامنے آنے کے بعد انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔
SEE ALSO: نیب مقدمات میں ریلیف: 'وقت بدلتا ہے تو سیاست بھی تبدیل ہو جاتی ہے'سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے آڈیو کے حوالے سے سینئر صحافی حامد میر نے نجی ٹی چینل ’جیو نیوز‘ پر اپنے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں تجزیہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پرویز الہٰی سپریم کورٹ کے جج کو یار یار کہہ کر مخاطب ہو رہے ہیں جب کہ وہ محمد خان بھٹی کا بھی ذکر کر رہے ہیں جو کہ اس وقت سپریم کورٹ کے جج کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور پرویز الہٰی محمد خان بھٹی کا کیس اسی جج کی عدالت میں لگوانا چاہتے ہیں۔
محمد خان بھٹی پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری تھے۔ جولائی 2022 میں پرویز الہٰی کے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بننے پر محمد خان بھٹی کو ان کا پرنسپل سیکریٹری بنا دیا گیا تھا۔
ان کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ وہ رواں ماہ کے آغاز سے لاپتا ہیں جنہیں سندھ میں گرفتار کیے جانے کے بعد تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
رواں ماہ چھ فروری کو ایک پریس کانفرنس میں پرویز الہیٰ نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد خان بھٹی کو سندھ میں مٹیاری سے گرفتار کیا گیا ہے۔
محمد خان بھٹی پر جنوری میں لاہور کے تھانہ اینٹی کرپشن میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ان پر ٹرانسفر اور پوسٹنگز کے عوض کروڑوں روپے کی رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔