پاکستان: نمونیے سے ہر سال 90 ہزار سے زائد بچوں کی موت

فائل فوٹو

اگر بچے میں بخار، سانس میں تکلیف ہو یا کھانسی کی شکایت ہو تو کسی قریبی ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ کرانا ضروری ہے تاکہ اس بات کی تشخیص ہو سکے کہ کیا یہ صرف نزلہ زکام کا حملہ ہے یا اس میں نمونیہ کی علامات ہیں۔

پاکستان میں حکومت کی طرف سے نمونیے سے بچاؤ کی ویکسین کی مفت فراہمی کے باوجود ملک میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ 90 ہزار سے زائد بچے اس مرض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یہ بات پاکستان میں بچوں کے ڈاکٹروں کی تنظیم، 'پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن' کے نائب صدر اور بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں بچوں کے امراض سے متعلق شعبے کے سراہ ڈاکٹر جلال اکبر نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال ہونے والی کم عمر بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ نمونیہ ہے۔

"اس کی علامات میں بچو ں میں عموماً تیز بخار کے ساتھ کھانسی ہونے اور عرف عام میں تیز سانس یا پسلیوں کا چلنا ہوتا ہے اور یہ بیماری سانس کی نالی کے ذریعے ایک بچے سے دوسرے بچے میں منتقل ہوتی ہے۔ "

ڈاکٹر جلال نے مزید کہا کہ مناسب حفاظتی اقدامات اور بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین دے کر اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے۔

"اگرچہ حکومت نے بچوں میں نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسین مفت فراہم کر رہی ہے اور یہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی روٹین ویکسین کے پروگرام میں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود ہر سال پانچ سال سے کم عمر کےلگ بھگ 50 فی صد بچے اس ویکسین پروگرام سے مستفید ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ عوام میں نمونیہ سے متعلق آگاہی اور بہتر منصوبہ بندی سے اس مسئلہ سے نمٹا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول نمونیہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج تو ممکن ہے لیکن یہ مہنگا اور طویل ہوتا ہے اور علاج سے بہتر ہے کہ بچوں کو ان بیماریوں سے بچایا جائے۔

ڈاکٹر جمال نے مزید کہا کہ اگر بچے میں بخار، سانس میں تکلیف ہو یا کھانسی کی شکایت ہو تو کسی قریبی ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ کرانا ضروری ہے تاکہ اس بات کی تشخیص ہو سکے کہ کیا یہ صرف نزلہ زکام کا حملہ ہے یا اس میں نمونیہ کی علامات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے افراد کو بھی نمونیے کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے معمر افراد کو بھی نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسین سے اس بیماری کا تدارک ممکن ہے۔

ڈاکٹر جلال اکبر نے کہا کہ احیتاطی تدابیر اختیار کرکے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے جس میں ماحول کو صاف رکھنا اور بچوں میں غذائیت کو بہتر کرنا ضروری ہیں کیونکہ غذائیت کی کمی کا شکار بچے نمونیہ کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 12 نومبر کو نمونیہ سے بچاؤ کا دن منایا جاتا ہے جس کامقصد لوگوں میں اس مرض سے بچاؤ سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

ڈاکٹر جلال اکبر نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ بچے نمونیے کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد کا تعلق صرف 10 ملکوں سے ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔