"میری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔۔۔ میرا بچہ میرے شوہر کے ہاتھوں میں مار دیا گیا۔ میرا حوصلہ نہیں کہ میں آپ سے بات کروں۔۔۔ میرا اعتماد تو پولیس سے اٹھ چکا ہے۔ آپ ہی بتائیں کیا پولیس کا کام ایسا ہوتا ہے؟ کیا ایسے ہوتے ہیں ہمارے محافظ۔" یہ الفاظ 19 ماہ کے ننھے احسن کی والدہ کے ہیں جوانہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہے۔
ان کا بیٹا احسن کراچی کے یونیورسٹی روڈ پر منگل کی رات کو اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنا تھا جب دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار پولیس اہلکاروں نے مبینہ ڈکیت کا پیچھا کرنے کے دوران فائر کھول دیا تھا۔
پولیس اہلکاروں کی ایک گولی رکشے میں اپنے والد کاشف راجہ کی گود میں بیٹھے 19 ماہ کے احسن کو جا لگی تھی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ فائرنگ پولیس کے ہتھیاروں کی گئی جس کے بعد دو پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
گزشتہ 16 ماہ کے دوران کراچی میں اس نوعیت کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں اب تک پولیس کی فائرنگ سے کم سے کم چھ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اگر ان واقعات میں جعلی ثابت ہونے والے پولیس مقابلوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو ہلاکتوں کی تعداد 10 تک جا پہنچتی ہے۔ پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے اس کے علاوہ ہیں۔
ان میں سے بیشتر واقعات میں ہلاک ہونے والے یا تو نوجوان تھے یا پھر چھوٹے بچے۔۔۔ لیکن اب ایک شیر خوار بچے کی ہلاکت نے سندھ پولیس کی تربیت میں جوجود خامیوں کو ایک بار پھر آشکار کردیا ہے اور پھر سے میڈیا میں اس معاملے پر بحث چھڑ گئی ہے۔
آئی جی سندھ کی معافی
آئی جی سندھ کلیم امام نے تسلسل کے ساتھ ہونے والے ان واقعات پر معافی مانگتے ہوئے برملا اعتراف کیا ہے کہ پولیس کی ٹریننگ میں خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس نے صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے قربانیاں دی ہیں جس کے نتیجے میں صوبے بھر میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔ لیکن ان کے بقول اس کے باوجود ایسے واقعات کی جن میں پولیس کی گولی سے معصوم شہری مارے جائیں، کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔
آئی جی پولیس نے ایک بار پھر شہریوں کو یقین دلایا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تربیت بہتر بنا کر مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جائے گا۔
پولیس کی تربیت کب اور کیسے ہوگی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کی تربیت میں موجود خامیوں کو چند دن میں دور نہیں کیا جاسکتا۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے پولیس اور شہریوں کے درمیان اشتراک کے لیے قائم ادارے 'سینٹرل پولیس لائژن کمیٹی' کے سابق سربراہ احمد چنائے اس طرح واقعات کو بدقسمتی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف سندھ پولیس کا نہیں بلکہ پاکستان بھر کی پولیس کا مسئلہ ہے۔ ساہیوال میں حال ہی میں ہونے والا دلخراش سانحہ سب کے سامنے ہے۔
احمد چنائے کے مطابق یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس کے نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے اور اس میں تبدیلی سوچ کی تبدیلی سے شروع ہوتی ہے۔ ان کے بقول ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں شہری واقعتاً پولیس کو اپنا محافظ سمجھیں۔
احمد چنائے کے مطابق جرائم پیشہ عناصر ہمیشہ سے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپتے ۔ہیں لیکن ملزمان کو پکڑنے کے لیے پولیس کی ضروری تربیت کے فقدان کے باعث اکثر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس میں معصوم شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان کے بقول اسلحہ چلانے کی چھ سے آٹھ ماہ طویل تربیت کے بعد پولیس کانسٹیبل کو ہتھیار تو تھما دیا جاتا ہے لیکن اس کے استعمال سے قبل سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ اور نفسیاتی تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔
احمد چنائے کہتے ہیں فیلڈ میں تعینات پولیس اہلکاروں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ جہاں مجرم کو پکڑنا ان کی ذمہ داری ہے، وہیں انسانی جان کا تحفظ بھی ان کا فرض ہے۔
کیا اب تک کسی کو سزا ملی؟
پولیس کی فائرنگ سے معصوم شہریوں کی ہلاکت کے پے در پے واقعات نے جہاں پولیس کی کارکردگی اور تربیت کے معیار پر سوالات کھڑے کیے ہیں، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ہونے والے ایسے واقعات کے کسی ایک بھی مقدمے کا نہ اب تک فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی پولیس اہلکار یا افسر کو قرار واقعی سزا ملی ہے۔
کراچی میں شہریوں کے جعلی مقابلوں میں مارے جانے یا کسی کارروائی کی زد میں آکر ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات نئے نہیں۔ نوے کی دہائی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر ایسے واقعات کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن اگر صرف حالیہ واقعات کا ہی جائزہ لیا جائے تو جنوری 2018ء میں کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاون میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نقیب اللہ اور دیگر کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر فردِ جرم تو عائد کی جاچکی ہے لیکن ابھی کیس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اس کیس میں پولیس کی اپنی تفتیش ثابت کرچکی ہے کہ یہ ایک جعلی مقابلہ تھا جس میں نہتے اور معصوم شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔
گزشتہ سال جنوری میں ہی پولیس کے اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں نے نوجوان انتظار احمد کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار ڈالا تھا۔ لیکن جائے واقعہ پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے یہ عقدہ کھولا کہ نوجوان کو گھات لگا کر پولیس اہلکاروں نے مارا۔ اس کیس کا فیصلہ بھی ابھی ہونا باقی ہے۔
2018ء میں شارع فیصل پر پولیس فائرنگ سے مارے جانے والے مقصود احمد کے قتل کیس میں ملوث تین پولیس افسران کو محکمانہ کارروائی کے دوران معطل تو کیا گیا، مگر اب تک کیس منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا ہے۔
پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران گاڑی میں والدین کے ساتھ سوار آٹھ سالہ بچی امل کا کیس ہو یا پھر ایسے ہی ایک واقعے میں میڈیکل کی طالبہ 19 سالہ نمرہ کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کیس، یہ تمام مقدمات بھی ابھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
قائد آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے سات سالہ سجاد بھی چند ہفتے قبل ہی موت کے منہ میں جاچکا ہے جس کا کیس ابھی ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔
ماہرین کے مطابق ان مقدمات کی سست رفتاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ تفتیش اور عدالتی نظام میں نقائص کے باعث ایسے واقعات میں بھی انصاف کا حصول آسان نہیں۔
سندھ حکومت کیا کہتی ہے؟
ایک جانب جہاں آئی جی سندھ کلیم امام نے شہریوں کی ہلاکت پر معافی مانگی ہے، وہیں صوبہ سندھ میں برسرِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس معافی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعلیٰ کے بقول اس قبلے کی درستگی کے لیے ہی صوبائی حکومت سندھ میں نیا پولیس ایکٹ لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن کئی پولیس افسران اس نئے ایکٹ پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور اسے پولیس فورس کو کنٹرول کرنے کا بل قرار دے رہے ہیں۔