بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے نوجوان فیضان جتک کی ہلاکت پر اعلیٰ حکام نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
بدھ کی رات کو کوئٹہ کے علاقے سریاب میں پولیس کے ایگل اسکواڈ کی مبینہ فائرنگ سے نوجوان فیضان کی ہلاکت کی اطلاعات آئی تھیں۔ جب کہ ایک نوجوان زخمی بھی ہوا تھا۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے نوجوان فیضان جتک کے زخمی ہونے والے کزن کی مدعیت میں تھانہ سریاب میں ایگل اسکواڈ کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
ایف آئی آر میں فیضان جتک کے کزن شہزاد جتک نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ اور ان کے کزن جناح ٹاؤن سے سریاب روڈ پر گھر کی طرف جا رہے تھے کہ تقریباً 10 بج کر 15 منٹ پر سدا بہار ٹرمینل کے قریب ایگل اسکواڈ نے ہماری گاڑی روکی۔
شہزاد جتک کے بیان کے مطابق گاڑی تھوڑی آگے جا کر رکی تو اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی۔ گولی لگنے سے فیضان جتک زخمی ہوئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔
پولیس نے ایگل اسکواڈ کے چار اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
واقعے کے بعد ورثا کا احتجاج
واقعے کے بعد ورثا نے لاش کے سریاب روڈ پر احتجاج کیا اور ٹائر جلا کر روڈ بلاک کر دیا۔ لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فیضان جتک پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
فیضان کے قریبی دوست نجیب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فیضان دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ نجیب خان کے بقول 17 سالہ فیضان کے تین بھائی ہیں اور وہ بھائیوں میں تیسری نمبر پر تھے۔ فیضان کے والد مقامی ٹرانسپورٹر ہیں۔
فیضان جتک کی ایگل اسکواڈ کے مبینہ فائرنگ سے ہلاکت کے واقعے کا وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، صوبائی وزیرِ داخلہ اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس بلوچستان نے واقعے کا نوٹس لے لیے ہے۔ جب کہ واقعے کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ واقعہ قابلِ مذمت اور ناقابلِ برداشت ہے، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بعد ازاں صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ سریاب روڈ پر مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے نوجوان فیضان جتک کی ہلاکت اور ان کے ساتھی کے زخمی ہونے کے واقعے پر افسوس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 'پولیس کے اعلیٰ حکام نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے فوری انکوائری کے احکامات جاری کردیے ہیں۔'
سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے پولیس اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا پر فیضان کے حق میں ٹرینڈ بھی چلایا گیا اور لوگوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور 'حقائق کو منظر عام پر لاکر ذمہ دار افراد کو سزا دی جائے۔'
ملک اچکزئی نامی شہری نے سوال کیا کہ 'کیوں ہمارے نوجوانوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قتل کیا جارہا ہے اور انہیں کیوں استثنیٰ ہے'
انہوں نے لکھا کہ یہ پولیس کی جانب سے شہریوں پر حملے کا دوسرا واقعہ ہے۔
بلوچستان سے رکن صوبائی اسمبلی ثنااللہ بلوچ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ''بلوچستان میں جنگل کا قانون ہے۔ کوئی شخص محفوظ نہیں۔ ریاست روزگار دینے کے بجائے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔''
واضح رہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت کے واقعات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں جن میں سے بعض واقعات میں قانونی کارروائی کے بعد اہلکاروں کو سزا بھی ملی۔ اکثر ایسے واقعات کے بعد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہونے والوں کو جرائم پیشہ قرار دیتے ہیں یا ان پر سیکیورٹی انتباہ پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔