بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی کشمیر کے سابق وزیرِ اعلٰی اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کی قیادت میں ایک وفد نے جمعرات کو نئی دہلی میں الیکشن کمیشن حکام سے ملاقات کر کے فوری انتخابات پر زور دیا۔
اپویشن جماعتوں کے13رکنی وفد نے چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا راجیو کمار اور اُ ن کےمعاونین کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ سابقہ ریاست کی اسمبلی کے لیے انتخابات آخری مرتبہ 2014 میں ہوئے تھے۔
فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ "ہم جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی فوری بحالی چاہتے ہیں اور اس کی اسمبلی کے لیے انتخابات مزید تاخیر کے بغیر کرانے کو جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک باوقار ریاست کا درجہ کم کر کے اسے ایک یونین ٹریٹری میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ ایک المیہ تھا۔
فاروق عبداللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے یقین دلایا ہے کہ اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول ایک ایسی ریاست کے جو بھارت کا تاج ہے مرتبے کو کم کرکے ایک یونین ٹریٹری بنایا گیا۔ ہم جموں و کشمیر میں ایک جمہوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں ۔"
بھارتی کشمیر میں آخری مرتبہ 2014 کے عام انتخابات کے بعد علاقائی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست میں مخلوط حکومت قائم کی تھی۔
لیکن جون 2018 میں بی جے پی نے حکمراں اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد محبوبہ مفتی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ بعدازاں ریاست میں گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔
محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی اور دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اور ان کی حلیف جماعتوں نے دوبارہ حکومت بنانے کی کوشش کی۔ لیکن گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی کو تحلیل کرکے اسے ناکام بنا دیا تھا۔
پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں بدل دیا تھا۔
یہ علاقے اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں اور ان کا نظام وفاق اپنے مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر کے ذریعے چلاتا ہے ۔
جموں و کشمیر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار
فاروق عبداللہ نے کہا کہ "جموں و کشمیر سیاسی، انتظامی اور اقتصادی غیر یقینی صورتِ حال سے گزررہا ہے۔ لداخ کے لوگ بھی اگست 2019 کے بعد وجود میں لائے گئے بندوبست سے خوش نہیں ہیں جس کا انہوں بارہا برملا اظہار کیا ہے۔"
الیکشن کمیشن سے ملنے سے پہلے فاروق عبداللہ کی قیادت میں اس وفد نے نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیامیں بھارت میں حزبِ اختلاف کی قومی جماعتوں کےلیڈروں سے بھی ملاقات کی اور انہیں جموں و کشمیر اور لداخ کی سیاسی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ایم) کے لیڈر سیتا رام یچوری نے کہا کہ"جموں و کشمیر کی اپوزیشن پارٹیوں کے سبھی مطالبات جائز ہیں۔بالخصوص اسمبلی انتخابات کرانے میں کی جا رہی تاخیر جمہوریت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو نو ٹس لینا چاہیے۔"
سی پی آئی ایم کی جموں و کشمیر شاخ کے سربراہ محمد یوسف تاریگامی نے وائس آف امریکہ کو بتایا "نریندر مودی حکومت کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو من مانے طور پر اٹھائے گئے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کے بعد سے جموں و کشمیر ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
اُن کے بقول یہاں کے عوام کو ایک نئی اسمبلی منتخب کرنے کے حق سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے جو جمہوریت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے۔"
'بی جے پی عوام کا سامنا کرنے سے کتراتی ہے'
تاریگامی نے مزید کہا کہ"بھارتی حکومت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتی کہ پانچ اگست 2019 میں اور اس کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں امن بحال ہوا ہے اور حالات معمول پر آگئے ہیں اور جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کے لوگ بھی اس بات پر خوش ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ یہ علاقے اب بھارت کے ساتھ ضم ہوگئے ہیں۔ اگر واقعی یہی صورتِ حال ہے تو اسمبلی کے لیے عام انتخابات کیوں نہیں کرائے جارہے؟ بی جے پی لوگوں کا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہی ہے؟"
ان کے اس بیان کی توثیق کرتے ہوئے فاروق عبد اللہ نے کہا کہ "حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ جموں و کشمیر میں حفاظتی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ نے استفسار کیا "اگر ہم اس ملک کا حصہ ہیں اور یہ ایک جمہوری ملک ہے تو ہمیں اس جمہوری حق سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟"
تاریگامی نے کہا کہ وفد نے قومی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں سے کہا کہ وہ اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ بھارتی پارلیمان میں اٹھائیں جس کے دونوں ایوانوں کے اجلاس ان دنوں نئی دہلی میں ہورہے ہیں۔
'جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں'
حزبِ اختلاف کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ وفد نے قومی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو یہ بھی بتایا کہ ان کے بقول جموں و کشمیر میں تقریباً ایک صدی سے رائج اراضی اور شہریت کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے لوگوں میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت ایک ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد اس مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرکے بی جے پی اور اس کی سرپرست جماعت راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے دیرینہ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈروں کو یہ بھی بتایا گیا کہ لداخ سمیت جموں و کشمیر کے عوام کا یہ خیال بھی ہے کہ اُن کے اقتصادی، معاشی، سماجی اورثقافتی مفادات کو بھی زد میں لایا جارہا ہے ۔
بھارت کی نیشنل کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار نے کہا کہ" جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی فوری بحالی کے مطالبے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ہم سرینگر جاکر جموں و کشمیرکے عوام کے دکھ اور درد میں شامل ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہم انہیں یہ یقین دلائیں گے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔"
'اپوزیشن کا شور شرابہ فضول ہے'
بی جے پی کے ایک ترجمان نے اپوزیشن کے مطالبات اوربیانات پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا " وزیرِ داخلہ امت شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جموں و کشمیر میں مناسب وقت پر اسمبلی انتخابات کرائے جائیں گے اور اس کے بعد اس کی ریاستی حیثیت کو بحال کیا جائے گا۔"
ترجمان کا کہنا تھا کہ ان معاملات میں شور شرابہ فضول ہے ۔ کچھ لوگ جموں و کشمیر میں امن وامان کی بحالی اور سبک رفتار ی کے ساتھ ہو رہے تعمیرو ترقی کے کاموں سے خائف ہیں اور اسے اپنی شکست سمجھتے ہیں۔