چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعرات کو ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ موجودہ حکومت کے قیام کو آٹھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں اور ملک میں شدید سیاسی، تناؤ اور بحران ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمتِ عملی اپنائی اور پھر پتا نہیں کیوں پارلیمنٹ میں واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی انہیں بڑی تعداد میں عوام کی حمایت حاصل رہی ہے۔ درخواست گزار عمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سے متنازع قانون سازی ہو رہی ہے جس کے خلاف درخواست آئی ہے۔ عدالت اس معاملے میں مداخلت کرنا نہیں چاہتی۔
SEE ALSO: پی ڈی ایم حکومت کے آٹھ ماہ، کیا کھویا کیا پایا؟جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس عارضی قانون سازی ہوتی ہے لیکن حالیہ ترامیم مستقل نوعیت کی ہیں۔ آرڈیننس لانے کی وجہ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونا بھی ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم صرف اپنے فائدے کے لیے کی گئیں جن کے اپنے مفادات تھے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی شخص پارلیمان سے نکل کر عدالت آیا ہو۔ان کے مطابق اس طرح سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ایک شخص جب اقلیت میں ہے اور اس کے حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت کے علاوہ کہاں جائے؟
ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سیاسی خلا عوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے۔ جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ عمران خان کو بلا کر پوچھا جائے کہ اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں آئی جی پولیس تبدیل
حکومت نے خیبر پختونخوا کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری کو تبدیل کر دیا ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت نے گریڈ 21 کے افسر اختر حیات گنڈا پور کو صوبے کا نیا آئی جی مقرر کر دیا ہے۔
اختر حیات گنڈا پور قبل ازیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے تھے۔
رپورٹس کے مطابق معظم جاہ انصاری کو اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اختر حیات گنڈا پور صوبے میں پہلے بھی بطور ڈی آئی جی پولیس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے بتایا جاتا ہے۔
میڈیا میں قبل ازیں یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ صوبے کے نگران وزیرِ اعلیٰ اعظم خان نے آئی جی پولیس کو تبدیل نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔
پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں گزشتہ ماہ کے آخر میں دھماکہ ہوا تھا جس میں 100 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
اس دھماکے کے بعد آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے جذباتی انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پشاور خودکش حملے سے متعلق سازشی نظریات سے پولیس کے جوانوں کے دکھ میں اضافہ ہے۔ نوجوان اہلکاروں کو گمراہ کرکے سڑکوں پر لانا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس دھماکے کے بعد صوبے میں بعض مقامات پر پولیس کے جوانوں نے احتجاج کیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ اگر وہ خود محفوظ نہیں ہیں تو لوگوں کی حفاظت کس طرح کریں گے۔
معظم جاہ نے اپیل کی تھی کہ پولیس کے جوانوں کی لاشوں پر سیاست نہ کی جائے اور پولیس کو اس کا کام کرنے دیا جائے۔ پولیس کا کام کاغذی کارروائی کرنا نہیں ہے۔ یہ ایک جنگ ہے جو مستقل چلی آ رہی ہے۔ اس میں اسلحہ اور گولہ بارود استعمال ہو رہا ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔