سپریم کورٹ میں سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تحریکِ انصاف کے لوگ قومی اسمبلی کے اراکین ہیں یا نہیں؟ اس پر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں۔ کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے، جہاں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی ہے۔
خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی حکمتِ عملی کے تحت اسپیکر استعفے منظور نہیں کر رہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی حلقے کو بغیر نمائندے اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کا کہا تھا۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جن ارکانِ اسمبلی کے استعفے منظور ہوئے ہیں وہ ارکان بھی اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسپیکر ایک دن سو کر اٹھے اور چند استعفے منظور کر لیے۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے۔ بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہو گا اسپیکر کے فیصلے پر اعتراض کر دے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریکِ انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر اسپیکر کو چار دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیا جائے تو کیا پی ٹی آئی اس کے لیے تیار ہے؟ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت ایسا حکم جاری کرتی ہے تو اس کے لیے پی ٹی آئی مکمل تیار طور پر ہے۔ پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی عوامی اعتماد توڑ کر بنی ہے اور نامکمل ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کا جانب دار نکتۂ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے۔ زبانی باتیں نہ کی جائیں، اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑ دی جائیں۔ جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ تحریکِ انصاف تو روزانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام سیاسی بحث ہے جس کو سیاسی مقام پر ہونا چاہیے۔ جب عوامی مفاد کی بات ہو تو پی ٹی آئی کا اسمبلی میں نہ ہونے کا سوال غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے۔ استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟ اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مطالبہ عوام میں جانےاور عام انتخابات کا ہے، اس سے زیادہ اور کیا کروں؟ سیاسی سوالات کا قانونی جواب نہیں دیا جا سکتا ۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے فوج کے نیب کی دسترس سے باہر ہونے کے سوالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان مکمل طور پر نیب کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ آرمی افسران کا احتساب دوران سروس نیب نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی افسران اگر دوران سروس کسی وفاقی یا صوبائی ادارے میں تعینات ہو تو کیا اس کا احتساب ہو سکتا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرمی افسران پر آرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، نیب قانون نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہو گا۔ آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا۔ اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آرمی افسران سروس میں جو بھی کریں، اس کا احتساب ریٹائرمنٹ کے بعد ہو سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرمی افسران کو نیشنل سیکیورٹی کے تحت دوران سروس نیب قانون سے تحفظ دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنی حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کو حاصل استثنی افواج کو کیسے دی جا سکتی ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت مانے یا نہ مانے آرمی افسران کو تحفظ دینا ہی پارلیمنٹ کی منطق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں افواج کو یہ استثنیٰ حاصل ہے، جو پاکستان میں ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سول سرونٹس بھی ملک کی خدمت پر مامور ہیں۔ انہیں نیب قانون میں استثنیٰ کیوں نہیں دیا گیا؟ اگر آرمی افسر کرپشن کر رہا ہے تو 40 سال انتظار کریں کہ ریٹائر ہو تو احتساب کیا جائے گا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرمی افسران کمیشن حاصل کرنے کے بعد صرف 18 سال سروس میں رہتے ہیں۔ افواج کا اندرونی کنٹرول، منیجمنٹ اور احتساب کا طریقۂ کار ہے۔ آرمی میں ہونے والی سزائیں بھی عام سزاؤں سے سخت ہوتی ہیں۔
اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ امر بالمعروف و ونہی عن المنکر اسلام بنیادی اصول ہے۔ غلط کام کو غلط اس وقت ہی کہا جا سکتا ہے جب وہاں موجود ہوا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی جانا یا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے۔ اداروں کو فعال کرنا ہوگا، پارلیمان ایک بنیادی ادارہ ہے۔ بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں عوام اعتماد کرکے بھیجتے ہیں۔ اسمبلی اسی صورت چھوڑی جا سکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے۔ ارکانِ اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سینیٹ میں نیب ترامیم پر بحث ہوئی تھی؟ اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سینیٹ سے بھی ترامیم بغیر بحث منظور کرائی گئیں۔
اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایوان میں قانون پر بحث ہی نہ ہو تو استعفے کے علاوہ کیا حل ہے؟
اس کیس میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں جب کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں حکومت کے وکیل مخدوم علی خان دلائل کا آغاز کریں گے۔
دہشت گردی کا استعمال بھارت سے زیادہ کسی اور ملک نے نہیں کیا: حنا ربانی کھر
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے الزام عائد کیا ہے کہ دنیا میں کسی دوسرے ملک نے دہشت گردی کا اتنا استعمال نہیں کیا جتنا بھارت نے کیا ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کا نوٹس لینا چاہیے۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ "بھارت دہشت گردی کا شکار ہونے کا بہانہ بنا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ درحقیقت بھارت نے دہشت گردی سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔"
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ بھارت انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کا چیمپئن بنتا ہے۔ لیکن درحقیقت اس نے اس ضمن میں کوئی کاوش نہیں کی۔ اس کے برعکس پاکستان انسدادِ دہشت گردی کے لیے عالمی برادری کے شانہ بشانہ فرنٹ لائن پر رہا ہے۔
وزیرِ مملکت برائے خارجہ نے کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب گزشتہ برس ہونے والے دھماکے میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام بھی دہرایا۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس حوالے سے سفارت کاروں کو بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد کے ساتھ ڈوزیئر دیا ہے۔ اس معاملے کو عالمی فورمز پر بھی اُٹھایا جائے گا۔
فریال تالپور کے خلاف دائر نااہلی کی درخواست خارج
سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر نااہلی کی درخواست خارج کر دی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے محفوظ فیصلہ بدھ کو سنایا۔ خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 27 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
کمیشن نے پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور کے خلاف نااہلی کی درخواست مسترد کر دی۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی ارسلان تاج گھمن اور رابعہ اظفر نے درخواست دی تھی۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ کہ فریال تالپور نے اپنے اثاثے ظاہر کیے۔ نااہلی کے لیے مواد اور ٹھوس ثبوت دینے ہوتے ہیں۔ درخواست گزار نااہلی کا کیس بنانے میں ناکام رہے۔
خیال رہے کہ ارسلان تاج گھمن نے ایک رات قبل سوشل میڈیا پر فیصلے کے حوالے سے بیان دیا تھا۔
ملک پر غیر مقبول لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے: حماد اظہر
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ملک پر غیر مقبول لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چوروں نے چوری کو قانونی کور دے دیا ہے۔
لاہور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں شفقت محمود، مصدق عباسی اور مسرت جمشید چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس نظام کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ سلیمان شہباز کی اوقات نہیں کہ وہ عمران خان کے بارے میں بات کرسکیں۔مقصود چپڑاسی کی موت کا ابھی تک کچھ نہیں پتا چلا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سائیکل چوری کرنے والوں کو پولیس الٹا لٹکا دیتی ہے لیکن اربوں روپے کرپشن کرنے والوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں۔ قوم کا پیسہ ہے یہ ان کو معاف نہیں کریں گی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے ان کا ایک ہی مقصد ہے اپنے خلاف دائر کیسز ختم کیے جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب میں ترامیم سمیت تمام اقدامات کا مقصد ان کے کیسز ختم کرنا ہے اور اسی پر توجہ ہے۔
تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس
پاکستان تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس لاہور میں ہو رہا ہے جس کی صدارت عمران خان کریں گے۔
اجلاس میں شرکت کے لیے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین، بابر اعوان، سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف سینٹر وسیم شہزاد سمیت دیگر زمان پارک پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس میں شفقت محمود، زلفی بخاری، حماد اظہر اور فواد چوہدری بھی شریک ہوں گے۔