پاکستان میں دو ہفتے قبل فوج کے سربراہ کی تبدیلی ہوئی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سال تک آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے پر تنازعات بھی سامنے آئے تھے۔ اب موجودہ حکومت کے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر کی آرمی چیف کے طور پر تقرر کی توثیق نواز شریف نے کی۔ امید ہے وہ فوج میں بہتری لائیں گے۔
نجی نشریاتی ادارے 'سما' نیوز کے میزبان ندیم ملک کو دیے گئے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جو بھی نام تجویز کیا میاں نواز شریف نے اس کی توثیق کر دی۔
خیال رہے کہ نواز شریف ملک کے تین بار وزیرِ اعظم رہے ہیں ان کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی البتہ نومبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی تھی اور ان کوعلاج کی غرض سے چار ماہ کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد سے وہ برطانیہ سے پاکستان واپس نہیں آئے اور اب بھی لندن میں مقیم ہیں۔
گزشتہ ماہ نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل ملک میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان یہ الزام لگاتے رہے کہ ایک سزا یافتہ شخص فوج کے سربراہ کی منظوری دے گا تو اس سے یہ تعیناتی متنازع ہو جائے گی۔
نجی نشریاتی ادارے کو منگل کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نےمزید کہا کہ جنرل عاصم منیر انتہائی پروفیشنل ہے۔ ان سے توقع ہے کہ وہ فوج اور نظام میں بہتری لائیں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھا ہے کہ ہر بندہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے تو ملک کا مستقبل بہتر ہوگا۔
صدر سے ملاقاتیں
صدر عارف علوی سے حالیہ دنوں میں کی گئی ملاقاتوں کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں آرمی چیف کے حوالے سے کسی نام پر تبادلۂ خیال نہیں کیا گیا تھا۔ ان کو آگاہ کیا تھا کہ سیاست دان ہر معاملے پر سیاست کر رہے ہیں البتہ اس تقرر کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
ان کے بقول اگر صدر عارف علوی سمری روک لیتے تو اس معاملے میں مزید تین ہفتے کا تعطل آ جاتا۔ اس صورت میں فوج کے ادارے میں بے چینی پھیل جاتی۔ آرمی چیف کے تقرر کی سمری روکے جانے کی صورت میں حکومت نے ایک اور منصوبہ بنا لیا تھا کہ کوئی تعطل پیدا نہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے تحت یہ واضح ہے کہ ملک کی مسلح افواج بغیر کسی کمانڈ کے نہیں رہ سکتیں۔
حکومت کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر صدر آرمی چیف کے تقرر کی سمری روک لیتے ہیں تواس میں مزید 25 دن لگ سکتے تھے۔ ایسے میں ان کو بھیجی گئی سمری میں تجویز کردہ افسران کی خدمات میں توسیع کر دی جاتی اور جنرل عاصم منیر کو وائس آف آرمی چیف بنا دیا جاتا اور 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 25 دن میں جنرل عاصم منیر خود بخود عہدے پر تعینات ہو جاتے۔
خیال رہے کہ عارف علوی صدارت کا منصب سنبھالنے سے قبل تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل تھے۔ انہوں نے آرمی چیف کے تقرر کی منظوری دینے سے قبل اسلام آباد سے لاہور جا کر سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی تھی۔
تحریکِ اںصاف اور مسلم لیگ (ن) میں مذاکرات
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے صدر عارف علوی سے ملاقاتوں کے حوالے سے مزید کہا کہ انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ملک کی معیشت کے حوالے سے ان کو آگاہ کیا جائے تو وزیرِ اعظم کی منظوری سے وہ ان کے پاس گئے کیوں کہ عارف علوی ایک آئینی عہدے پر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی کی بھی خواہش ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہونا چاہیے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔
ان کے بقول البتہ اس بات چیت کے لیے کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ نواز شریف بھی ان ملاقاتوں کے معاملات سے آگاہ ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف رواں برس اپریل میں قومی اسمبلی سے تحریکِ عدم اعتماد منظور ہوئی تھی، جس کے بعد ان کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے سنبھال لیا تھا۔ عمران خان اس کے بعد متواتر ایک احتجاج تحریک چلا رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور ان کی وزارتِ عظمیٰ ایک سازش کے تحت ختم ہوئی۔ اب وہ ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں جب کہ اس مارچ میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں زخمی ہوئے تھے۔
قبل از وقت انتخابات ناممکن
اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں وقت سے قبل اب انتخابات ہونا مشکل ہے کیوں کہ موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں نے بڑی سیاسی قربانی دی ہے۔
ان کے بقول اکتوبر 2023 سے قبل انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔
خیال رہے کہ عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر حکومت قبل از وقت انتخابات کا اعلان نہیں کرتی تو وہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے جہاں پی ٹی آئی یا اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی حکومت ہے۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ جنرل باجوہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ پرویز الہٰی کو تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے کے لیے ابتدائی طور پر کسی اور نے اشارہ کیا تھا۔ بعد ازاں پرویز الہٰی نے ایسا کرنے کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ سے اجازت لی تھی البتہ جنرل باجوہ نے پرویز الہٰی کو تجویز کیا تھا کہ جو وہ مناسب سمجھتے ہیں اسی کے مطابق عمل کریں۔ اس لیے تمام الزام جنرل قمر جاوید باجوہ پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما مونس الہی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُنہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے کہا تھا۔ بعد ازاں پرویز الہیٰ نے بھی ان کے بیان کو درست قرار دیا تھا۔
پرویز الہیٰ اس وقت پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں جو کہ تحریکِ انصاف کی حمایت سے اس منصب پر پہنچے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان الزام لگاتے رہے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈبل گیم کھیلا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرکے انہوں نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ آئندہ فوج میں کبھی کسی کو ایکسٹینشن نہیں ملنی چاہیے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ ان کی مدتِ ملازمت نومبر 2019 میں مکمل ہونی تھی البتہ ملک میں تحریکِ انصاف کی نئی حکومت آ چکی تھی، جس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل اگست 2019 میں ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی البتہ بعد ازاں درخواست گزار نے وہ درخواست واپس لے لی تھی لیکن اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس معاملے کو اہم قرار دے کر اس کی سماعت کی اور نومبر 2019 حکومت کو مسلح افواج کے سربراہوں کی ایکسٹینشن کے حوالے سے چھ ماہ میں باقاعدہ قانون سازی کا حکم دیا۔ ایسے میں جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی عارضی ایکسٹینشن دی گئی۔
حکومت نے قانون سازی کے لیے جنوری 2020 میں بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیے جو کہ کثرت رائے سے با آسانی منظور ہو گئے۔ اس کے اگلے ہی دن سینیٹ میں بھی ایکسٹینشن کے حوالے سے قانون سازی کے بل منظور ہو گئے اور قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2022 تک تین سال کی ایکسٹینشن مل گئی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا ذکر
پرویز الہیٰ کی جانب سے قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر تحریکِ اںصاف کا ساتھ دینے کے بیان کے حوالے سے اسحاق ڈار نے انٹرویو میں کہا کہ پرویز الہٰی کو تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے کے لیے پہلی کال واپڈا ہاؤس سے آئی تھی۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ پرویز الہٰی کو اس وقت کے بہاولپور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے کال کی تھی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پرویز الہٰی کے معاملے میں نواز شریف کو انہوں نے راضی کیا تھا کہ ان کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دے دی جائے البتہ بعد میں ان کو دھچکا لگا۔
خیال رہے کہ رواں برس کے ابتدائی مہینوں میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے حمایت کر سکتی ہے البتہ بعد ازاں پرویز الہیٰ نے تحریکِ انصاف کا ساتھ دیا جب کہ مسلم لیگ (ق) کے اہم رہنما چوہدری شجاعت اور بعض ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ہے۔