کراچی: پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان تصادم

کراچی کے ضلع کیماڑی کے ڈپٹی کمشنر آفس میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم اور پتھراؤ کے نتیجے میں بعض کارکنوں اور صحافیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کیماڑی کے دفتر کے باہر بدھ کو احتجاج کیا جا رہا تھا۔ اس دوران پی ٹی آئی کارکنان اور وہاں موجود پیپلزپارٹی کے کارکنان میں تصادم ہوا۔

رپورٹس کے مطابق دونوں جماعتوں کے کارکنان نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران پولیس نے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔

پولیس کی جانب سے حالات پر قابو پانے کے لیے اضافی نفری بھی طلب کرلی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کا جماعت اسلامی کی درخواست پر نوٹس

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں سے متعلق درخواست پر نوٹس لے لیا ہے۔

بدھ کو جاری کیے گئے ای سی پی کے اعلامیے کے مطابق یہ نوٹس جماعت اسلامی کی درخواست پر لیا گیا ہے اور تمام کیسز کی سماعت 23 جنوری کو مقرر کی گئی ہے۔

ای سی پی کے مطابق جماعت اسلامی نے ضلع غربی کی پانچ یوسیز اور ضلع شرقی کی ایک یوسی میں بے قاعدگیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

کراچی کے میئر کا معاملہ، پیپلزپارٹی جماعتِ اسلامی سے بات چیت کے لیے تیار

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ سرکاری افسران کو یرغمال بنانا اور دھمکیاں دینا مناسب نہیں ہے۔

بدھ کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمٰن کے پاس معلومات درست نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی اس طرح کی چیزیں نہ کرے جس سے شہر کا ماحول خراب ہو۔

اُن کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے اگر اعتراضات ہیں بھی تو ان کے حوالے سے قانونی راستے بھی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے ترجیحی بنیادوں پر بات کرنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کو توقع سے زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے ہی علاقوں سے جیتی ہے۔

ماضی کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1979 میں کراچی میں پیپلز پارٹی نمبر ون تھی جب کہ جماعت اسلامی نمبر ٹو تھی لیکن جماعت اسلامی کا میئر بن گیا تھا۔

سعید غنی کے مطابق کراچی کے عوام نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو مل کر کراچی سے نفرت کی سیاست کو ختم کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یہ کر سکے۔

انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ میئر کا معاملہ اور ٹاؤن کے چیئرمینوں کے معاملے پر راستے نکالے جا سکتے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کے بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے اگر بائیکاٹ کیا ہے تو ان کا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ان کے کہنے پر لوگوں نے ووٹ نہیں دے۔ لیکن منتخب نمائندے حلف لیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے۔

گورنر خیبرپختونخوا نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیے

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ حاجی غلام علی نے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت ختم ہو گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے منگل کی شب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی تھی اور انہیں اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی تھی۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کیا تھا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد محمود خان نگراں کابینہ کے قیام تک وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے۔

وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی صوبے میں نگراں وزیرِ اعلیٰ کے لیے ناموں پر مشاورت کریں گے۔

تحریکِ انصاف کے 34 اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 34 اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا استعفیٰ بھی منظور کر لیا گیا ہے۔

اسپیکر کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان اراکین کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔

جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں، ان میں سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک، فواد چوہدری، شہریار آفریدی، علی امین گنڈا پور، نور الحق قادری، مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، راجہ خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام سرور خان اور شیخ راشد شفیق بھی شامل ہیں۔

شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، ثناء اللہ مستی خیل، شفقت محمود، ملک عامر ڈوگر، فہیم خان، سیف الرحمٰن اور محمد عالمگیر کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کی زرتاج گل اور کنول شوزب کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے ایسے وقت میں پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے ہیں جب تحریکِ انصاف نے عندیہ دیا تھا کہ صدرِ پاکستان وزیرِ اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم کا ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان


مرکز میں حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی خالی نشستوں پر پی ڈی ایم کے امیدوار حصہ نہیں لیں گے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان کا مزید کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

’اسپیکر تو کہتے تھے ایک ایک کرکے استعفیٰ منظور کروں گا‘

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر تو کہتے تھے ایک ایک کرکے استعفے منظور کریں گے لیکن انہوں نے خوف زدہ قیادت کو بے نقاب کر دیا۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ
پاکستان تباہی کی طرف جا رہی ہے اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ملک انتشار اور معاشی تباہی کی طرف جائے گا۔


شیخ رشید نے کہا ہے کہ حالات کی سنگینی ایسی ہے کہ الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

’تمام نشستوں پر عمران خان امیداوار‘


تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی تمام نشستوں پر الیکشن لڑے گی اور ان تمام نشستوں پر امیدوار عمران خان ہوں گے۔

خیال رہے کہ منگل کو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان میں سے 34 کے استعفے منظور کیے تھے جب کہ شیخ رشید کا استعفیٰ بھی قبول کر لیا گیا ہے۔

قبل ازیں اکتوبر 2022 میں قومی اسمبلی کے سات حلقوں پر ضمنی انتخابات میں عمران خان پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ ان سات میں چھ پر عمران خان کامیاب ہوئے تھے۔

’خیبر پختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن جلد نگران حکومت بنائیں‘

خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن قوم کا وقت بچانے کے لیے جلد نگران حکومت بنائیں۔

پشاور میں بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں حاجی غلام علی کا کہنا تھا کہ قوم کا وقت بچانے کے لیے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر صبح ہی دستخط کر دیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے 32 گورنر گزرے ہیں اور عہدے سے ہٹنے کے بعد کبھی بھی عوام کے پاس نہیں گئے۔ ان کے بقول وہ گورنر شپ سے ہٹنے کے بعد سیدھا تاجروں اور عوام کے درمیان جائیں گے۔

مزید پڑھیے