الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کوممنوعہ فندنگ ملنے کے فیصلے کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ عمران خان کی جماعت اور خود ان کے لیے کیا سیاسی اور قانونی مضمرات ہو سکتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تحقیقات میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان کو کئی سطحوں پر مشکلات اور قانونی مراحل کا سامنا رہے گا۔
الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملہ کو وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔
کیا تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے؟
سابق ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ تین مراحل میں طے کیا جانا ہے جس میں سے الیکشن کمیشن نے پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو اب حکومت کو بھجوایا ہے اور حکومت اگر اس سے مطمئن ہو گی تو سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے ریفرنس پر پی ٹی آئی پر پابندی لگا دیتی ہے تو اس کے تمام اراکین اسمبلی خود بخود رکنیت کھو دیں گے۔
'الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے'
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مدثر رضوی کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار موجود نہیں ہے البتہ وہ کسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کا اختیار صرف حکومت کے پاس ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرکے اس پر پابندی لگوا دے۔
پاکستان میں انتخابی عمل اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ غیر ملکی ذرائع سے فنڈنگ ہوئی ہے۔ قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوجاتا ہے تو وہ قابلِ سزا ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے جس کے ثابت ہونے پر پی ٹی آئی کو سنگین مضمرات کو سامنا ہوگا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ جماعت پر پابندی زیادہ کارگر نہیں رہے گی کیونکہ پی ٹی آئی کسی اور نام سے خود کو رجسٹر کروا سکتی ہے تاہم پابندی کی صورت میں اس کے تمام اراکین اسمبلی رکنیت کھو دیں گے اور آئندہ چار سال کے لیے نااہل بھی قرار پائیں گے۔
کیا عمران خان بیان حلفی پر نااہل ہوسکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ عمران خان نے اس معاملے کی تحقیقات کے دوران الیکشن کمیشن میں اپنا غلط بیان حلفی (تصدیقی سرٹیفکیٹ) جمع کرایا تھا۔
امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا اس سیاسی جماعت پر پابندی کے معاملے سے کوئی عمل دخل نہیں رہتا۔ البتہ تحقیقاتی رپورٹ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ ضبط کی جائے اور غلط بیانِ حلفی دینے پر جماعت کے سربراہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ غلط بیان حلفی عمران خان کو نااہلی کی طرف لے جاسکتا ہے الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف آرٹیکل 62/ 63 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اسمبلی رکنیت ختم کرسکتا ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مدثر رضوی کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں واضح ہے کہ سیاسی جماعت کا سربراہ الیکشن کمیشن کو حلفیہ بیان دے گا کہ جماعت کو حاصل ہونے والی تمام تر فنڈنگ قانونی طریقے سے حاصل کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں عمران خان کی جانب سے دیا گیا یہ بیان حلفی غلط ثابت ہوچکا ہے لہذا اس پر مزید کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے جو کہ آرٹیکل 62/63 کے تحت نااہلی ہوسکتی ہے۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ تصدیقی سرٹیفکیٹ میں عمران خان نے اپنے دستخط سے یہ لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کو حاصل ہونے والی فنڈنگ قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی لہذا اس حوالے سے ان کے صادق اور امین ہونے پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے پاس بھی یہ اختیار موجود ہے کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے پر کارروائی عمل میں لاسکتی ہے اب جب کہ تحقیقاتی اداروں کو الیکشن کمیشن کے تحقیقاتی شواہد بھی دستیاب ہیں۔
فیصلے کو چیلنج کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟
پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے خلاف آنے والے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ پی ٹی آئی اس فیصلے پر اعلی عدلیہ سے رجوع کرسکتی ہے تاہم الیکشن کمیشن کا ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کا فیصلہ عدالتی نہیں بلکہ تحقیقاتی فیصلہ ہے اور تحقیقات میں سامنے آنے والے شواہد و معلومات کو معطل نہیں کرایا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس معاملے پر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجواتی ہے تو اس موقع پر پی ٹی آئی کو اپنی صفائی کا موقع ملے گا۔
فافن کے مدثر رضوی کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی اور تحقیقات کے دوران بھی پی ٹی آئی نے اپنے دفاع میں ممنوعہ فنڈنگ کو یکسر مسترد نہیں کیا بلکہ تیکنیکی وجوہات کا سہارا لینے کی کوشش کی۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ تحریک انصاف اگر اس فیصلے کو چیلنج نہ کرتی تو حیرانی ہوتی کیونکہ اس فیصلے کے ان پر خاصے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت سے رجوع کرنے سے ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو حکم امتناع مل جائے اور اس صورت میں حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر نہیں کرسکے گی۔