القاعدہ کے سربراہ ایمنِ الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا معاملہ شہ سرخیوں میں ہے جب کہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے کے پاکستان اور افغانستان سمیت خطے پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس معاملے پر بھی بات ہو رہی ہے کہ امریکی ڈرون افغانستان میں کس سمت سے داخل ہوا۔ ادھر خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ الظواہری جہاں مقیم تھے وہ جائیداد طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے معاون کی ملکیت تھی۔
افغانستان کے سینئر صحافی مدثر شاہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے ڈرون طیاروں کا دنیا کے کسی بھی خطے سے استعمال کرنا حیران کن نہیں ہے۔خلیجی ملکوں کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں سے امریکہ با آسانی ڈرون طیاروں کو استعمال کرتے ہوئے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسے تمام افراد جو امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ تصور ہو سکتے ہوں۔ انہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہدف بنانا کچھ ایسا مشکل نہیں ہے۔
ایمن الظواہری کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے واضح کیا کہ دہشت گرد یہ جان لیں کہ وہ امریکہ کے لوگوں اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچائیں گے تو وہ کہیں بھی ہوں گے، جتنا بھی چھپ لیں، ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
مدثر شاہ کے مطابق گزشتہ روز کابل میں پیش آنے والے واقعے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور طالبان کے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔
واضح رہے کہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی اصولوں اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ اس طرح کے اقدامات گزشتہ 20 برسوں کے دوران ناکام تجربات کا اعادہ ہیں اور یہ امریکہ، افغانستان اور خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔
مدثر شاہ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حملے کے ذریعے افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے تاہم طالبان بھی کابل میں القاعدہ رہنما کی موجودگی کا جواز بھی پیش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ افغانستان نے بھی علاقائی سالمیت کے پیشِ نظر امریکہ سمیت دیگر ملکوں سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے روابط ختم کرنے کے وعدے کیے تھے۔
شیر پور کا علاقہ کابل کے وسط میں واقع ہے۔ عمومی طور پر یہ علاقہ سفارت کاروں، این جی اوز اور میڈیا کے دفاتر کے لیے مشہور ہے۔ تاہم امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد بعض لوگوں نے یہاں رہائش بھی اختیار کر لی ہے۔ شیر پور کے علاقے ہی میں ایمن الظواہری اپنی فیملی کے ہمراہ رہائش پذیر تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صبح سویرے وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے کہ عین اسی وقت انہیں نشانہ بنایا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں کوئی سویلین ہلاکت نہیں ہوئی۔
ڈرون حملے کے بعد طالبان نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور کسی بھی شخص کو جائے وقوعہ تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔
طالبان نے ڈرون حملے کی تو تصدیق کی ہے لیکن ابھی تک ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
دوسری جانب افغان شہریوں نے بھی امریکی اقدام کی مذمت کی ہے۔
کابل کے رہائشی رؤف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ " امریکہ نے یہ اچھا اقدام نہیں کیا ۔ یہ ہماری سرزمین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہم اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"
'طالبان کو ایمن الظواہری کے ٹھکانے کا علم ہو گا'
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا ٹھکانہ طالبان کے علم میں نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے کابل سمیت دیگر بڑے شہروں میں گھر گھر تلاشی کی مہم شروع کی تھی اور شیرپور کا شمار تو کافی حساس علاقوں میں کیا جاتا ہے۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق وہ یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایمن الظواہری کے ٹھکانے کا علم طالبان گروہ کے کسی سرکردہ دھڑے کو ضرور ہو گا۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے القاعدہ رہنما کو نہ صرف پناہ مہیا کی تھی بلکہ سپورٹ بھی فراہم کی تھی۔ اگر یہ واقعہ کسی دور افتادہ پہاڑی علاقے میں واقع ہوا ہوتا تو طالبان کے پاس بہانے کا کوئی آپشن ہو سکتا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کابل کے وسط میں کیا جانے والا یہ حملہ طالبان قیادت کے لیے نہ صرف باعث شرمندگی کا باعث بن گیا ہے بلکہ ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بج گئی ہے کہ بھلے افغانستان کا زمینی کنٹرول طالبان کے پاس ہو لیکن فضائی کنٹرول اب بھی امریکہ کے پاس ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ اگست میں انخلا کے بعد سے امریکہ کی جانب سے افغان سرزمین پر یہ پہلا ڈرون حملہ ہے جس میں کسی ہائی ویلیو ٹارکٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔