پاکستان اور بھارت نے مئی 1998 میں ایٹمی تجربات کیے لیکن دونوں ملک ان دھماکوں کا سبب الگ الگ بتاتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس نے 11 مئی 1998 کو بھارت کی جانب سے کیے جانے والے جوہری تجربات کے جواب میں 28 مئی کو پانچ دھماکے کیے۔ لیکن بھارت کہتا ہے کہ نیوکلیئر پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) نامی معاہدہ ایٹمی دھماکے کی وجہ بنا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وزیرِ اطلاعات کے منصب پر فائز رہنے والے مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد مشکل کی وہ گھڑی اور چیلنج پاکستان کے لیے ایک مثبت موقعے کی صورت میں ہاتھ آئی تھی۔
ان کے بقول، مسلم ملک ہونے کے باعث دنیا کے کسی بھی ملک نے پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے کی اجازت نہیں دینی تھی۔ اگر پاکستان 28 مئی کو ایٹمی قوت نہ بنا ہوتا تو امریکہ نے نائن الیون حملے کے واقعے کے بعد حملہ افغانستان پر نہیں بلکہ کہوٹہ میں قائم پاکستان کی جوہری تنصیبات پر کرنا تھا۔
مشاہد حسین سید اس وقت پاکستان کی سینیٹ میں فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمن بھی ہیں۔ مئی 1998 کے حالات و واقعات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ قزاقستان کے شہر الماتے میں معاشی امور سے متعلق ایک کانفرنس کے اختتام کے بعد سیر و تفریح کر رہے تھے کہ اچانک وزیرِ اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے ایک پیغام پہنچایا کہ "ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کر لیے ہیں۔"
مشاہد حسین سید کے مطابق 11 مئی کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد عالمی برادری کو خدشہ تھا کہ پاکستان ضرور ایٹمی دھماکے کرے گا۔ اسی لیے پاکستان پر مغربی دنیا کا شدید دباؤ شروع ہو گیا تھا۔
ان کے بقول، "امریکہ سمیت پوری دنیا سے وفود پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے تھے جب کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے پانچ مرتبہ ٹیلی فون کال کی اور دو مرتبہ برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر نے رابطہ کیا''۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ سویلین حکومت کا تھا، جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ان کے بقول، وزیرِ اعظم نے مسلح افواج کے تینوں سروسز چیفس کا ایک اجلاس بلایا جس میں ایک نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت، ایک نے حمایت اور ایک نے کہا کہ آپ خود فیصلہ کریں۔
مشاہد حسین نے ایٹمی دھماکوں کی حمایت، مخالفت اور نیوٹرل رہنے والے عسکری قیادت کے نام نہیں بتائے۔
سابق وزیرِ اطلاعات کے مطابق، فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد وزیرِ اعظم نے اپنے سائنس دانوں کی ٹیم کا ایک اجلاس بلایا اور انہیں بتایا کہ پاکستان جواب دینا چاہتا ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ انھیں تیاری کے لیے دو ہفتوں کا وقت چاہیے۔
مشاہد حسین سید کے مطابق انہوں نے وزیرِ اعظم کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ایٹمی دھماکے کرنے سے قبل پاکستان کو مغرب کو ٹیسٹ کرنا چاہیے کہ وہ ہندوستان پر کیا پابندی لگاتے ہیں؟
'نواز شریف کو ایل کے آڈوانی کے بیان پر شدید غصہ تھا'
ان کے مطابق، برمنگھم میں ہونے والی جی-8 کانفرنس میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کی حفظ ماتقدم کی حد تک مذمت کی گئی اور کوئی پابندی کا ذکر نہیں کیا گیا۔
مشاہد حسین کے مطابق، مئی کے وسط میں بھارتی نائب وزیرِ اعظم ایل کے آڈوانی کا ایک بہت سخت بیان آیا، جو، ان کے بقول، ''رعونت اور تکبر سے بھرا تھا، جس میں پاکستان کو خبردار کیا گیا تھا کہ بھارت اب ایٹمی طاقت بن چکا ہے اس لیے پاکستان کشمیر پر ہندوستان کی پالیسی مان لے''۔
مشاہد حسین سید کا مزید کہنا تھا کہ "اس بیان کے بعد نواز شریف کو شدید غصہ تھا، جس پر انہوں نے پوچھا کہ ایٹمی دھماکہ کرنے کے لیے کتنا انتظار کرنا ہو گا؟ جس پر میں نے انہیں بتایا کہ کم از کم جون کے پہلے ہفتے تک۔ جس پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ پاکستان کو جواب مئی کے مہینے میں ہی دینا ہو گا۔"
ان کے بقول، 1999 میں بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر میاں نواز شریف نے خوشگوار موڈ میں پہلا جملہ ہی یہ کہا تھا کہ "وزیرِ اعظم واجپائی صاحب ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہم بھی نیوکلیئر پاور بن گئے۔ جس پر وزیراعظم اٹل بہاری صاحب بھی مسکرا دیے تھے''۔
SEE ALSO: 28 مئی 1998 کا اخباری ضمیمہ اور پانچ ایٹمی دھماکےتئیس برس قبل 28 مئی کو پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑوں میں پانچ دھماکے کیے تھے۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان جوہری ہتھیار رکھنے والا مسلم دنیا کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ملک بن گیا تھا۔
ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ بھارت کو جواب دینا بہت ضروری تھا کیوں کہ پاکستان پر ملک کے اندر اور باہر سے بہت زیادہ دباؤ تھا۔
بقول ان کے، "پاکستان نے خفیہ طور پر 24 سال سے ایٹم بم بنانے کے لیے محنت کی تھی۔ اور اگر اس وقت اسے باہر نہ لاتے تو پھر کب لاتے؟ دوسرا یہ کہ طاقت کے توازن کے لیے بھی ایٹمی دھماکے کرنا بہت ضروری تھا۔ ورنہ ہندوستان نے پاکستان پر مستقل طور پر حاوی ہو جانا تھا۔"
'بھارت نے سی ٹی بی ٹی کی وجہ سے ایٹمی دھماکے کیے'
بھارت کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے نہیں کیے۔ بلکہ بھارت نے شروع دن سے ہی نیوکلیئر پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) نامی معاہدے کو متعصبانہ قرار دیا ہوا تھا، جو ایٹمی دھماکے کی وجہ بنا۔
اس معاہدے کے مطابق، جن ممالک نے 1968 تک ایٹمی دھماکوں کے ٹیسٹ کیے ہوئے ہیں وہی ایٹمی طاقت تسلیم کیے جاتے ہیں اور جنھوں نے اس کے بعد ایٹمی تجربات کیے وہ ایٹمی طاقت نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بھارت کے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک ایکسپرٹ اور بھارتی فضائیہ کے سابق ایئر مارشل کپل کاک کا کہنا ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے کے پسِ پردہ سی ٹی بی ٹی (کمپری ہینسو نیوکلیئر ٹیسٹ بین ٹریٹی) نامی معاہدہ بھی کارفرما تھا۔
اس معاہدے کے تحت پانچ ممالک (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین) کے علاوہ مزید اگر کسی بھی ملک نے ایٹمی تجربہ کیا تو اس کے خلاف بڑے پیمانے پر پابندیاں لگانا شامل ہیں۔
کپل کاک کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے سی ٹی بی ٹی کے دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کامیاب ایٹمی تجربات کیے اور دھماکے کرنے سے قبل وزیرِ اعظم نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن کو ایک خط کے ذریعے پیشگی آگاہ کر دیا تھا۔
ان کے بقول، امریکہ کو بتایا گیا تھا کہ بھارت کو چین سے خطرہ ہے اور وہ اپنے دفاع کو ایٹمی طاقت کے ذریعے سے ہی مضبوط کر سکتا ہے۔
گیارہ مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کو یاد کرتے ہوئے کپل کاک نے بتایا کہ وہ اُس وقت انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈی اینڈ اینالیسز کے تھنک ٹینک میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض تھے۔
ان کے بقول، انہوں نے اسی وقت ان خدشات کا اظہار کر دیا تھا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ضرور جوہری تجربات کرے گا؛ اور ان کے بقول، ایسا کرنے کی ضرورت بھی تھی، کیوں کہ دفاع اور عوامی دباؤ کو اس سے کم کسی بھی چیز کے ذریعے دور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
کپل کاک کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھارت کی تمام تر توجہ سی ٹی بی ٹی اور این پی ٹی سے نکلنے اور عالمی سطح پر ایٹمی طاقت کے طور پر ابھر کر آنے کی تھی۔ کیوں کہ بھارت کی نظر میں این پی ٹی ایک لحاظ سے نیوکلیئر نسلی امتیاز تھا۔
'نوک جھونک کے باوجود کبھی نوبت ایٹمی ہتھیاروں تک نہیں پہنچی'
اگرچہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکوں کو خطے میں طاقت کے توازن کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ایٹمی دھماکوں کے ایک سال بعد ہی دونوں ملکوں میں 1999 میں کارگل کے واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2002 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے بھی آئیں۔ اسی طرح 2008 میں ممبئی حملوں اور اس کے بعد ایسے بیشتر واقعات رونما ہوئے جس کے باعث دونوں ملکوں میں کشیدگی برقرار رہی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے عالمی سطح پر اس خطے کو ہمیشہ نیوکلیئر فلیش پوائنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم، ایئر مارشل ریٹائرڈ کپل کاک اسے مغرب کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں اور وہ اسے ٹریگر پوائنٹ نہیں مانتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہی ہے، لیکن بات کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں تک نہیں پہنچی، جو کہ دونوں ممالک کی جانب سے ذمہ داری اور تحمل کا ثبوت ہے۔
کپل کاک کا کہنا تھا کہ ایٹمی ہتھیار دراصل جنگی نہیں بلکہ سیاسی دفاع کا ہتھیار ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں 'بیک چینل ڈپلومیسی' دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
'دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا دائرہ اب افغانستان تک پھیل گیا ہے'
امریکہ میں مقیم سینئر صحافی انور اقبال، وائٹ ہاؤس کو کور کرتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد نہ صرف عالمی برادری نے پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا تھا، بلکہ بھارت نے کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور صوبۂ سندھ میں راجستھان سے متصل تھر کے ہندو اکثریتی علاقوں پر بھی دعوے شروع کر دیے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ امریکہ نے پاکستان پر کچھ پابندیاں بھی لگائیں، لیکن امریکہ کو جب یہ احساس ہوا کہ پاکستان رکنے والا نہیں تو بعد ازاں واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت والے ملک ہونے پر زور دیا گیا، تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو روکا جا سکے۔
انور اقبال کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی طاقت کے طور پر تو اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے بقول، دونوں ملک اربوں ڈالر دفاع کی مضبوطی پر خرچ کر چکے ہیں۔ لیکن ترقی، تعلیم اور صحت پر بہت کم ترجیح دی گئی۔
انور اقبال کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا دائرہ اب افغانستان تک پھیل گیا ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی افغانستان میں ایک دوسرے کے اثر و رسوخ میں اضافہ دیکھنا پسند کرنا نہیں چاہتا۔
بھارت اور پاکستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں، کپل کاک کا کہنا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کا چین پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جب کہ بھارت چین کو اپنے لیے مستقل خطرہ سمجھتا ہے۔ اس لیے بھارت امریکی کیمپ میں چلا گیا ہے۔
کپل کاک کے خیال میں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو دوستی کے بجائے معمول کے تعلقات کے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔