پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں منعقد ہونے والا تین روزہ پشتون قومی جرگہ اختتام پذیر ہو گیا ہے جس میں ملک کے نظم و نسق کو آئین و قانون کے مطابق چلانے، پارلیمان کی بالادستی اور پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیاہے۔
پشتون قوم پرست جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی میزبانی میں ہونے والے جرگہ کے اختتام کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں فوج کو ملک کے سیاسی امور سے الگ رکھنے ، ملک کی دفاعی پالیسی کو عوامی امنگوں کے تحت کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
جرگے کے شرکا نے جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے جلد رہائی کا مطالبہ کیا۔اس کے علاوہ پشتون تحفظ تحریک کے دیگر رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پشتون قومی جرگے میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے عمائدین کے سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے دانشوروں، وکلا، صحافیوں اور ماہرین تعلیم نے بھی شرکت کی۔
پشتون قومی جرگہ کے اعلامیے میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے ، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے امن و امان کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ منتخب اداروں میں پشتونوں کو واضح نمائندگی دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جرگہ کے اعلامیے میں پشتون علاقوں میں ٹارگٹ ہلاکتوں کے مبینہ واقعات کی روک تھام ، امن و امان کے مسائل کی وجہ سے نقل مکانی کو روکنے، مادری زبان اور ثقافت کے فروغ کی سرگرمیوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جرگے سے خطاب کے دوران پشتونوں سے روا رکھے جانے والے مبینہ استحصال کے خاتمے اور ان کےعلاقوں میں بدامنی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
تین روزہ جرگے میں شریک عمائدین اور سیاسی رہنماؤ ں نے افغانستان میں جاری بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں جاری مبینہ بیرونی مداخلت کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
جرگے کے اعلامیے میں اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سے افغانستان کے امن و استحکام کی ضمانت دینے کا بھی مطالبہ کیا اور کسی ملک کا نام لیےبغیر افغانستان کی خراب صورتِ حال کا ذمہ دار وہاں جنگ شروع کرنے والوں کو قرار دیا۔
فوج کا انتظامی امور میں کوئی کردار نہیں: بیرسٹر سیف
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے پشتون قومی جرگے کے اعلامیے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کا ملک کے انتظامی امور میں کوئی کردار نہیں۔ اس وقت ملک میں ایک منتخب سیاسی حکومت ہے اور وزیر اعظم عمران خان ملک کے سیاسی انتظامی نظام کے سربراہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ ملک بھر میں قانون ساز ادارے آئین کے مطابق قانون سازی کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کے بقول نہ تو فوج کا سیاسی اور انتظامی امور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کے بقول اس کی کوئی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ فوج کا کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ملک میں انسداد دہشت گردی کے لیے فوج پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کررہی ہے۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ علی وزیر کے خلاف مقدمات درج ہیں جو عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر لوگوں کو چاہیے کہ وہ عدالتوں سے رجوع کریں۔
بیرسٹر سیف نے پشتون جرگے میں پیش کیے گے اس مؤقف کو مکمل طور پر مسترد کر دیا کہ پشتونوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہو رہی ہے ۔
ان کے بقول، " اس وقت ملک کے انتظامی اور سیاسی امور میں پنجاب کے بعد سب سے بڑا حصہ پشتونوں کا ہے۔نہ صرف وزیر اعظم عمران خان بلکہ حزبِ اختلاف کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان بھی پشتون ہیں اور وہ ملک کے سیاسی نظام میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔"