پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سعودی عرب میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے آئندہ ہفتے سعودی عرب جائیں گے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے جمعے کو جاری ایک بیان کے مطابق عمران خان کو اس دورے کی دعوت سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے دی ہے۔
رواں سال اگست میں پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کا سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ ہوگا۔
اس دورے کے دوران وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی دوطرفہ امور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 23 سے 25 اکتوبر کو ہونے والی اس بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں دنیا کی سرکردہ کاروباری شخصیات، سرمایہ کاروں، بڑی کاروباری کمپنیوں اور ٹیکنالوجی اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
ذرائع ابلاغ اس کانفرنس کو 'ڈیووس ان ڈیزرٹ' کا عنوان دے رہے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق عمران خان تین روزہ کانفرنس کے پہلے روز کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات اور مواقع کے بارے میں بات کریں گے۔
بعض تجزیہ کار اس دورہ کو اس کی ٹائمنگ کی وجہ سے اہم قرار دے رہے ہیں کیوں کہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے بقول عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے ساتھ بھی بات چیت ہو رہی ہے۔
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے موقع پر وزیرِ اعظم کو ان عالمی کاروباری اداروں کے سربراہوں سے تبادلۂ خیال کو بھی موقع ملے گا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے متمنی ہیں۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں 90 ملکوں کے 3500 سے زائد مندوبین شرکت کریں گے۔
لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم کی طرف سے سعودی عرب میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں کے سربراہان اور امریکہ سمیت مغربی ملکوں کے اعلیٰ حکام اور وزرا نے سعودی صحافی جمال خشوگی کی مبینہ ہلاکت کے بعد اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔
ترک حکام کا الزام ہے کہ سعودی حکومت کے ناقد خشوگی کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا۔
خشوگی کی مبینہ ہلاکت پر سفارتی اور صحافی حلقے شدید تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ بطور احتجاج کئی کاروباری اور حکومتی شخصیات نے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
رواں ہفتے پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے سعودی صحافی کے لاپتا ہونے کے واقعے پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور یہ مناسب ہو گا کہ ان کے مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے۔
ترجمان نے مزید کہا تھا کہ سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کے ناتے پاکستان توقع کرتا ہے کہ دونوں ملک اس معاملے کو مشترکہ طور پر حل کر لیں گے۔