پاکستان میں کم تنخواہ والوں سے ٹیکس وصولی کی تجویز: 'بے چینی اور ٹیکس چوری بڑھے گی'

ورلڈ بینک نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں حکومتِ پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے کے سب سے نچلے سلیب پر بھی ٹیکس لگائے جو ماہانہ 50 ہزار روپے یا اس سے بھی کم کما رہے ہیں۔

ٹیکس امور کے کئی ماہرین نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ٹیکس آمدنی میں مزید کمی واقع ہو گی۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں ٹیکس کے شعبوں میں اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں انکم ٹیکس سے استثنیٰ والے ملازمین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

'کم آمدن والا طبقہ پہلے ہی مہنگائی کے باعث پریشانی کا شکار ہے'

ممتاز ٹیکس ماہر علی رحیم نے اس تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا شکار ہیں.

اُن کے بقول ملک میں امیر برآمد کنندگان، لاکھوں ایکڑ اراضی رکھنے والے کاشت کاروں، تاجروں، خوردہ فروشوں اور رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والے محض برائے نام ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت تنخواہ دار طبقے سے جس قدر ٹیکس لے رہی ہے وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ اگر حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافے کی خواہش مند ہے تو اسے اب دیگر شعبہ جات دیکھنے ہوں گے۔

انہوں نے نشان دہی کی کہ ملکی دولت (جی ڈی پی) میں 22 فی صد سے زیادہ زراعت کا حصہ ہے۔ لیکن یہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس ایک فی صد سے بھی کم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مشورے پر اگر حکومت نے عمل کیا بھی تو اس سے کم آمدنی والے طبقے میں بے چینی اور ٹیکس چوری ہی میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل پائیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں مافیاز کے خلاف کریک ڈاؤن؛ کیا مہنگائی کم ہوسکے گی؟

'زیادہ آمدن والے طبقے پر ٹیکس عائد کرنے سے حکمران طبقے کے مفادات متاثر ہوتے ہیں'

ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقے نے مجموعی طور پر 264 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جب کہ پاکستان کے امیر ترین برآمد کنندگان نے محض 74 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا تھا۔

حال ہی میں آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کے بعد ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ فنڈ نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک میں غریبوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے امیر طبقے پر ٹیکس لگائے۔

تاہم ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق سمیت کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کیوں کہ ایسے میں حکمراں اشرافیہ کے مفادات پر ہی کاری ضرب لگتی ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ ملک میں دو طرح سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔

اُن کے بقول ڈائریکٹ ٹیکسز کُل ٹیکسوں کا محض 30 فی صد ہیں۔ حکومت کا زیادہ تر انحصار ِان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جو غریب اور امیر یکساں ادا کرتے ہیں۔

اُن کے بقول غریب طبقے کی آمدن محدود ہونے کے باوجود انہیں زیادہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرانی پڑتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد محض 30 لاکھ ہے اور یہاں ملکی دولت (جی ڈی پی) کا محض 10.2 فی صد ٹیکسوں میں جمع ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک ہی کی رپورٹ میں تجویز کیے گئے یہ اقدامات قابلِ عمل ہیں جن کے تحت ملک میں زراعت، ریٹیل اور پراپرٹی پر بھی ٹیکسوں میں اضافہ اور انتظامی بہتری کے اقدامات کیے جائیں۔

کون کتنا ٹیکس دیتا ہے؟

اس وقت اگر آپ پاکستان میں کسی ادارے میں تنخواہ دار ملازم ہیں اور 50 ہزار تک ماہانہ یعنی چھ لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو آپ کی تنخواہ پر کوئی انکم ٹیکس نہیں بنتا۔

اسی طرح اگر آپ کی سالانہ آمدن چھ سے 12 لاکھ کے درمیان ہے تو آپ کو ڈھائی فی صد انکم ٹیکس دینا ہوتا ہے۔

تنخواہ 12 سے 24 لاکھ سالانہ ہے تو آپ کو 15 ہزار روپے فکس ٹیکس اور 12 لاکھ سے زائد جس قدر تنخواہ ہو اس پر ساڑھے 12 فی صد کی شرح سے انکم ٹیکس دینا ہوتا۔

اسی طرح فرض کریں کہ آپ کی تنخواہ 24 سے 36 لاکھ روپے سالانہ ہے تو آپ کو ایک لاکھ 65 ہزار روپے اور ساڑھے 22 فی صد کی شرح سے ٹیکس دینا ہو گا۔

اسی طرح اگر آپ کی ماہانہ تنخواہ 36 سے 60 لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے تو آپ کو چار لاکھ 35 ہزار روپے فکس ٹیکس کے علاوہ 27.5 فی صد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

آخری اور سب سے بڑے سلیب میں اگر آپ کی سالانہ تنخواہ 60 لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے تو آپ کو 10 لاکھ 95 ہزار روپے اور اپنی آمدن کا 35 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایشیا میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے، سالانہ سترہ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گنجائش ہے،


کم تنخواہ والے طبقے سے بھی انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں مہنگائی کی شرح دہائیوں کی بلند ترین شرح رہی ہے۔

حال ہی میں ختم ہونے والے سمتبر کے مہینے میں یہ شرح 31 فی صد سے بھی زائد نوٹ کی گئی ہے۔

بالخصوص ملک میں غذائی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد معاشی سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

ایسے میں کم آمدنی والے افراد پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز سے اس طبقے پر پڑنے والے اثرات کی بنیاد پر کئی ماہرین تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔