ریکوڈک منصوبے پر ان کیمرہ سیشن، کیا بلوچستان کو اس کا حصہ ملے گا؟

فائل فوٹو

بلوچستان میں سونے اور تانبے کے دخائر سے مالا مال علاقے 'ریکوڈک' سے متعلق مجوزہ معاہدے پر بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس کا معاملہ ان دنوں موضوع بحث ہے۔

بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی میں ان کیمرہ اجلاس ہوا ہے جس پر بعض حلقے اعتراض اُٹھا رہے ہیں کہ حکومت ریکوڈک پر کوئی خفیہ معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ریکوڈک معاہدے کو خفیہ نہیں رکھا گیا اس پر صوبے کے تمام منتخب نمائندوں کو بریفنگ دی گئی ہے۔

منگل کو کوئٹہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 'ریکوڈک' منصوبے میں بلوچستان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور اس حوالے سے کوئی خفیہ معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔

پیر کو ہونے والا ان کیمرہ اجلاس مسلسل 10 گھنٹے جاری رہا جس میں سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔

ریکوڈک سے متعلق اجلاس میں ایوان کے کل 65 اراکین میں سے 42 نے شرکت کی جب کہ 13 اراکین غیر حاضر رہے۔

ریکوڈک سے متعلق ان کیمرہ اجلاس چند روز قبل بلوچستان اسمبلی میں ہوا تھا۔

ان کیمرہ اجلاس سے متعلق خدشات

دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکڑ عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ان کیمرہ بریفنگ خدشات میں اضافہ کر رہی ہے، لہذٰا اس معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جانا ضروری ہے۔

منگل کو بلوچستان کے ضلع خاران میں مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مفادات کے خلاف کسی قسم کا کوئی معاہدہ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اجلاس میں ریکوڈک کے حوالے سے بریفنگ دی۔

اجلاس کے بعد بلوچستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے ریکوڈک منصوبے پر صوبائی اسمبلی میں ان کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں اراکیںِ اسمبلی نے بھرپور شرکت کی۔

ریکوڈک منصوبے پر ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ

بلوچستان اسمبلی میں ریکوڈک منصوبے پر ان کیمرہ اجلاس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں جس کے باعث سیاسی اور سماجی حلقوں نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر وکلا برادری نے منصوبے کی تفصیلات خفیہ رکھنے پر عدالتوں کا بائیکاٹ کیا منگل کو وکلا رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ریکوڈک معاہدے پر عوام کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ریکوڈک معاہدے کا فیصلہ کہاں اور کس کے ساتھ ہوا ہے ہم بلوچستان کے معدنی وسائل کو غیر قانونی طور پر فروخت ہونے نہیں دیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1993 سے 2001 تک کے ریکوڈک معاہدے کو بدنیتی پر مبی قرار دے کر سات جنوری 2013 کو اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

وکلا رہنماؤں نے بلوچستان حکومت کو کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی موجودگی میں خوف زدہ ہو کر عجلت میں ریکوڈک معاہدے پر کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے گریز کرے۔

Your browser doesn’t support HTML5

گوادر: 'ہمیں سی پیک نہیں، ہمارا سمندر اور روزگار چاہیے'

'پراسرار فیصلوں کو قبول نہیں کریں گے'

بلوچستان کے قبائلی رہنما اور سابق سینیٹر لشکری رئیسانی نے ریکوڈک معاہدے پر اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریکوڈک پر بند کمرے کے پراسرار فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستان کا ایک قومی سرمایہ ہے اس لیے اس پر بات چیت کھل کر ہونی چاہیے تاکہ ہر فرد کو یہ معلوم ہو کہ ان کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوا ہے۔

لشکری رئیسانی نے کہا کہ "بلوچستان میں پچھلے 70 برسوں کے جو تلخ تجربات ہیں انہوں نے میرے اور میرے ساتھیوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے اور ہم گھبرا گئے ہیں کہ کیا سابقہ ادوار میں ہونے والے فیصلوں کی طرح ریکوڈک کا فیصلہ بھی ہمارے خلاف ہونے جا رہا ہے؟"

انہوں نے کہا کہ ہم ماضی میں سوئی گیس، سیندک اور ساحلی وسائل سے محرومی پر احتجاج کرتے رہے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

انہوں نے کہا کہ ہم وکلا رہنماؤں کے ہمراہ ریکوڈک معاہدے سے متعلق ان سیشن اجلاس میں سامنے آنے والے حقائق کو چھپانے پر حکومت کے خلاف عدالتِ عالیہ سے رجوع کریں گے۔

کیا ریکوڈک کے نئے معاہدے میں بلوچستان کے حصے کا تحفظ ممکن ہو گا؟

بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد نے ریکوڈک کے ممکنہ معاہدے میں بلوچستان کے حصے کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں حکام نے بریفنگ کے دوران اراکینِ اسمبلی کو یقین دلایا ہے کہ نئے معاہدے میں بلوچستان کے حصے کا تحفظ کیا جائے گا۔

خلیل احمد کے بقول ہمارے ذرائع بتا رہے کہ ریکوڈک میں بلوچستان کو 10 فی صد حصہ دیا جا رہا ہے مگر بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اور دیگر اراکین اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ نئے معاہدے میں بلوچستان کو 25 فی صد حصہ دیا جائے۔

خلیل احمد کے بقول اُن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اراکینِ اسمبلی نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ جس کمپنی سے بھی نیا معاہدہ طے پائے اس کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ مقامی لوگوں کو روزگار میں 50 فی صد حصہ دے۔

اُن کے بقول بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے اراکین نے ان کیمرہ اجلاس میں مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو 25 فی صد کے بجائے 50 فی صد حصہ دیا جائے۔

کیا اسلم رئیسانی نے ریکوڈک معاملے پر اپنی حکومت کی قربانی دی؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ بلوچستان کی مودجودہ حکومت سپریم کورٹ کے سات جنوری 2013 کے فیصلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ریکوڈک کے حوالے سے نیا معاہدہ کرے۔

انہوں ںے دعویٰ کیا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کو ریکوڈک کے حوالے سے سودے بازی نہ کرنے کی پاداش میں ختم کر کے گورنر راج نافذ کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی ریکوڈک منصوبے کے ممکنہ معاہدے اور اس کی سابقہ حیثیت کے حوالے سے ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

البتہ بلوچستان حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ریکوڈک کے معاملے پر کسی کو بھی اندھیرے میں نہیں رکھا جائے گا۔

ریکوڈک منصوبے پر کب کیا ہوا؟

ریکوڈک بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب 'ریت کا ٹیلہ' ہے۔ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ایک قصبے کا نام ہے جہاں حکام کے مطابق اربوں ڈالرز کی قیمتی دھاتیں دریافت ہو چکی ہیں۔

ریکوڈک کو دنیا میں قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔

حکومتِ پاکستان نے 1993 میں چلی کی ٹھیتیان کاپر کمپنی اور کینیڈا کی 'اینٹو فاگستا' پر مشتمل کنسورشیم کے ساتھ اس علاقے سے معدنیات نکالنے کا معاہدہ کیا تھا۔

کمپنی کو 1993 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔

لیکن پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ٹھیکے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔ جس پر کمپنی نے عالمی بینک کے ثالثی کمیشن سے رُجوع کر کے پاکستان پر 16 ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

سال 2019 میں ریکوڈک سے متعلق سات سال پرانے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے، سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے قائم بین الاقوامی عدالت نے پاکستان پر پانچ ارب 80 کروڑ ڈالر سے زائد جرمانہ عائد کیا تھا۔

سال 2020 میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے ریکوڈک پراجیکٹ کیس میں پاکستان پر عائد چھ ارب ڈالرز جرمانے پر مستقل حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔

سن 2019 میں ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے ریکوڈک کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی ہدایت کی تھی۔