اخباری صنعت کے نمائندوں نے جمعے کے روز حکومتوں، عدالتوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ لڑائی، جرائم اور رشوت ستانی کے بارے میں پیشہ ورانہ رپورٹنگ کے فرائض کی انجام دہی پر مامور صحافیوں کے خلاف روا رکھے جانے والے تشدد کے واقعات سے بچاؤ کے لیے ’'مزید احتیاطی تدابیر‘‘ اختیار کی جاہئیں۔
'ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی)' کے بین الاقوامی خبروں کے نائب صدر، جان ڈینسکی کے بقول، ’’چاہے قتل، تشدد، گرفتاری یا ہراساں کیے جانے کا معاملہ ہو، صحافیوں کے خلاف سرزد ہونے والے جرائم اب معمول سا بنتا جا رہا ہے۔ در حقیقت، یہ عام سی بات ہو چکی ہے‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات صحافیوں کے تحفظ پر ’اے پی‘ کی جانب سے منعقدہ ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ بین الاقوامی اجلاس اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے، یونیسکو نے پیرس کے اپنے صدر دفتر میں منعقد کیا۔
'سی این این' کی نمائندہٴ خصوصی، کرسٹئین امان پور نے کہا ہے کہ، یونیسکو کے رُکن ممالک کو آزادیِ اظہار کو سربلند رکھنا چاہیئے، اور ’’ہمارے (صحافیوں) کو دشمن سمجھنے سے باز رہنا ہوگا۔ تبھی ہم غلط لوگوں سے نمٹ سکیں گے‘‘۔
اجلاس کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، 'انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے)' نے ایک نیوز رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 1990ء سے اب تک کم از کم 2297 صحافی اور میڈیا کا عملہ ہلاک ہو چکا ہے۔
نیویارک میٕں قائم، ’کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے کہا ہے کہ اِن میں سے، صرف گذشتہ سال 112 صحافی ہلاک ہوئے۔
ادارے کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ موجودہ سال، اب تک کم از کم تین صحافی قیل ہوچکے ہیں۔ اِن میں سے ایک فری لانس یمنی رپورٹر، عالم داد موجالی ہیں، جو سعودی قیادت والے اتحاد کی جانب سے فضائی حملے میں ہلاک ہوئے۔ وہ 'وائس آف امریکہ' کی جانب سے دیے گئے احکامات پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ کسی کاروباری ادارے کی حمایت کے بغیر، فری لانسر خطرناک ماحول میں اضافی مشکلات جھیلتے ہیں۔
ڈائن فولی کے بقول، ’’وہ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے نتیجے میں اذیت کا شکار بنتے ہیں‘‘۔ وہ جیمز فولی کی والدہ ہیں، جو سنہ 2014میں داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھوں شام میں اغوا ہوئے تھے۔ اُن امریکی فری لانس صحافی کا سر قلم کردیا گیا تھا۔
اے پی کی اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اہم اخباری ادارے جو تنازعے کے خطوں میں فری لانس نامہ نگاروں سے کام لیتے ہیں، وہ سکیورٹی سےمتعلق اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں اور یہ کہ اب وہ اِن اسٹرنگرز کو انشورنس کی سہولت دینے پر غور کر رہے ہیں۔
اجلاس میں شریک خطیبوں نے کہا کہ جب کبھی صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے یا اس سے بھی بدتر اذیت بھگتتے ہیں، ایسے میں لازم ہے کہ حکومتیں اور عوام اپنا زیادہ دبائو ڈالیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اُن کا تحفظ ہوسکے، اور یہ کہ آزادانہ طور پر پروان چڑھنے والے معاشروں میں آزادیِ اظہار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
'آئی ایف جے' کی رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ صحافی اور اُن کے مالکان کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو خطرات سے آگاہ رکھیں، آزمائش میں ڈالنے والے کام دینے سے احتراز کیا جائے اور خطرناک ماحول میں کام کرتے وقت تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
یوکرین میں، جہاں مئی 2014ء سے اب تک پانچ صحافی اور ذرائع ابلاغ کے دو کارکنان ہلاک ہوچکے ہیں، 'آرگنائزیشن فور سکیورٹی اینڈ کواپریشن اِن یورپ (او ایس سی اِی) ' نے مخاصمانہ ماحول میں کام کرنے سے متعلق میڈیا کی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے بارے میں باضابطہ تربیت کا اہتمام کیا ہے۔
کانفرنس کے علاوہ، یونیسکو اور 'رپورٹرز دوائوٹ بارڈرز' نے جمعے کے روز صحافیوں کے لیے 'سیفٹی گائڈ' کا نیا ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا شمارہ 1992 ء میں جاری ہوا تھا، جس میں' ڈجیٹل سیفٹی' کے بارے میں بھی ایک چیپٹر شامل تھا۔ یہ انٹرنیٹ پر انگریزی، عربی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
'آئی آیف جے' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کے لیے 2006ء تاریخ کا مہلک ترین سال تھا، جب 155 صحافی ہلاک ہوئے۔