پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو جانبدار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررکھا ہے اور اپنے اس مطالبے کو لے کر ان کی جماعت منگل کو ملک بھر میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے احتجاج کر رہی ہے۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف ماضی میں بھی اداروں کے سربراہان کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے اور اس بار ہونے والا احتجاج چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانے کے لیے ہو سکتا ہے۔ تاہم تحریکِ انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مطالبہ ہے کہ پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کیا جائے۔
چیف الیکشن کمشنر کے خلاف تحریکِ انصاف کا یہ احتجاج ایسے وقت میں کیا جارہا ہے کہ جب الیکشن کمیشن بدھ سے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی دوبارہ سے سماعت کرنے جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ تحریک انصاف کے غیرملکی فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے 30 دن میں فیصلہ سنائے۔ تاہم سوموار کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نےاس حکم کو معطل کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت ہے اور تحریک انصاف اس مقدمے میں تاخیری اقدامات لے رہی ہے۔
سکندر سلطان راجا کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ان کی تجویز پر عمل میں لائی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے عمران خان نے انکشاف کیا کہ اس تعیناتی پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا جس کے بعد موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا نام اسٹیبلشمنٹ نے تجویز کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس لا رہی ہے کیوں کہ الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں نہ کر کے نا اہلی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث ملک میں قبل از وقت انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔
تاہم موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کہتے ہیں ان کا عہدے سے مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ ملک کے بہتر مفاد میں کام جاری رکھیں گے۔
چیف الیکشن کمشنر کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے ؟
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کے کُل ارکان کی تعداد پانچ ہے۔ آئینِ پاکستان کی دفعہ 213 (2 اے) کے تحت وزیرِ اعظم کو چیف الیکشن کمشنر (یا ارکان) کی تعیناتی کے لیے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔
وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی صورت میں تین ناموں پر مبنی فہرست پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجی جاتی ہے جو کہ ان تین ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنے کے بعد انھیں منتخب کر سکتی ہے جس کے بعد صدر ان کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کر سکتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے ہٹانے کا طریقہ سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کی طرح ہے۔ اس حوالے سے اگر چیف الیکشن کمشنر کسی مِس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔
SEE ALSO: پارٹی سے کہہ دیا ہے کہ اسلام آباد کی جانب مارچ کی تیاری کریں: عمران خانسابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف ریفرنس ہی نہیں بلکہ ثبوت بھی پیش کرنا ہوں گے جب کہ تحریکِ انصاف نے صرف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے اور تاحال ایسا نہیں کیا۔ ان کے بقول تحریکِ انصاف کی جانب سے اس طرح کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانے کا اقدام ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول، "الیکشن کمیشن کے بہت سے اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج کیے گئے لیکن کسی بھی کیس میں چیف الیکشن کمشنر کی بددیانتی، ناہلی یا کوتاہی ثابت نہیں ہوئی۔"
اشتر اوصاف کہتے ہیں سابق حکومت نے تین ریفرنسز عدالتوں میں دائر کیے اور تینوں مسترد ہوئے جس میں سے ایک ریفرنس سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق تھا جس کے بارے میں عمران خان نے حالیہ دنوں میں کہا کہ وہ ریفرنس اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر دائر کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی افتخار خان کے مطابق تحریکِ انصاف الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج ممنوعہ فنڈنگ کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے ایک روز قبل کر رہی ہے اور اس احتجاج سے لگتا ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
SEE ALSO: عمران خان کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان، وجہ کیا ہے؟اشتر اوصاف بھی افتخار خان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں تحریک انصاف ماضی میں بھی عدلیہ اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے دھرنے دیتی رہی ہے اور الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاج بھی اسی قسم کا حربہ معلوم ہوتا ہے۔
افتخار خان کہتے ہیں کہ ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ جس حد تک پہنچ چکا ہے اب اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوسکتی، تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانے کی کوشش نہ ماضی میں زیادہ کارگر ثابت ہوئی اور نہ اب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ان کے بقول چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور اگر دباؤ میں آتے تو ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ اپنے اختتامی مراحل تک نہ پہنچتا۔
سکندر سلطان راجا کون ہیں ؟
سکندر سلطان راجا چیف الیکشن کمشنر بننے سے قبل ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ کے طور پر جانے جاتے تھے جو پنجاب، گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور وفاق میں مختلف سرکاری عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
سکندر سلطان راجہ سرگودھا کے علاقے بھیرہ کے رہنے والے ہیں ان کے والد فوج میں افسر تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم بھیرہ سے ہی حاصل کی اور اس کے بعد حسن ابدال کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے۔ ایف ایس سی کے بعد کینک ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے میڈیکل افسر بن کر سرگودھا کے ایک گاؤں میں تعینات ہوئے۔
بعدازاں انہوں نے سول سروس کے امتحانات دیے اور ڈی ایم جی میں منتخب ہو کر اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر پہلی تعیناتی ہوئی۔
سکندر سلطان ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بطور چیف سیکریٹری 2016 کے انتخابات بھی کرائے۔
سکندر سلطان مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد نومبر 2019 میں وفاقی سیکریٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔
سکندر سلطان راجا معروف بیوروکریٹ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے داماد ہیں۔
SEE ALSO: حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے، کیا فواد چوہدری اور اعظم سواتی کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے؟جنوری 2020 میں صدر عارف علوی نے سکندر سلطان راجا کی چیف الیکشن کمشنز کے طور پر پانچ سال کے لیے تقرری کی تھی۔ ان کا نام اس وقت کے وزیر اعظم عمران کان نے تجویز کیا تھا اور اپوزیشن کی رضامندی کے بعد ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔
اشتر اوصاف کہتے ہیں پاکستان میں الیکشن کمشنر کے منصب پر زیادہ تر سابق جج تعینات رہے ہیں البتہ یہ انتظامی عہدہ ہے اور انتظامی تجربہ رکھنے والا فرد ہی اس منصب کے لیے زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔
اوشتر اوصاف بتاتے ہیں وفاقی سیکریٹری ریلوے کے عہدے سے ریٹائرمنٹ پر شیخ رشید نے وزیرِ اعظم عمران خان کو خط لکھ کر کہا تھا کہ سکندر سلطان بہترین انتظامی صلاحیتیں رکھتے ہیں لہذا انہیں کسی سرکاری ادارے کا سربراہ لگایا جائے۔
اشتر اوصاف نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں وزیر کے خط کو کابینہ کا فیصلہ تصور کیا جاتا ہے اور ان کی خدمات کو سراہنے والی حکومت آج ان پر کس طرح تنقید کرسکتی ہے؟