پشاور ہائی کورٹ: تحریکِ انصاف کا انتخابی نشان بلا پھر بحال

فائل فوٹو

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کا انتخابی نشان بلا ایک بار پھر بحال کر دیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا ہے۔

فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے۔

پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق بدھ کو عدالت کی جانب سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر جرمانہ ہو سکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی ہے؟

فریقین کے وکلا کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار پر سوالات کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ دائرۂ اختیار پر اُصول کیا ہے وہ بتانا چاہتا ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 199 ہائی کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔ ہمارے انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوئے جو ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ ہمارے جنرل سیکریٹری بھی اس صوبے سے ہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ جنرل سیکریٹری کون ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عمر ایوب جنرل سیکریٹری ہیں جن کا تعلق اسی صوبے سے ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بتایا گیا الیکشن کروا دیا گیا ہے۔ یہ چیئرمین ہیں اور یہ کابینہ ہے اس لیے انتخابی نشان جاری کیا جائے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیئرمین کے سرٹیفکیٹ میں یہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات آئین کے مطابق کروائے ہیں۔ 215 سیکشن تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے۔ اس لیے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔

SEE ALSO: بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال، پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ سے رُجوع کا اعلان

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن اگر آئین کے خلاف ہوا تو آپ نے نہ تو شوکاز نوٹس دیا اور نہ ہی جرمانہ کیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ نے ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر سزا دی۔

جسٹس ارشد علی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 209 میں سیکشن 215 کے سب سیکشن کے تحت کیسے پارٹی کا نشان واپس لیا گیا؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 209 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات فارم 65 کو صرف دیکھنا نہیں بلکہ اس سے مطمئن ہونا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

بدھ کو کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی سماعت میں دلائل مکمل ہونے پر پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا۔

جسٹس اعجاز انور نے بدھ کو ہی فیصلہ سنانے کا عندیہ دے دیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا جس میں الیکشن کمیشن کا اقدام کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان واپس دیا گیا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی نے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کیا تھا جس پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے تحریکِ انصاف سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ بحال کر دیا تھا اور گزشتہ ہفتے تین جنوری بدھ کو الیکشن کمیشن کی انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔ یہ فیصلہ پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعجاز خان نے محفوظ کیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت آج ہونی تھی البتہ تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے آج یہ درخواست واپس لے لی تھی جس پر سپریم کورٹ نے یہ کیس خارج کر دیا تھا۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا تھا کہ آج پشاور ہائی کورٹ سے فیصلہ متوقع ہے اس لیے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لی گئی ہے۔

فیصلے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے باہر تحریکِ انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف کو آئندہ انتخابات جیتنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔

انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے فیصلے کو آئین و انصاف کی فتح قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر تحریکِ انصاف کا انتخابی نشان بلا ڈالے۔

مقامی میڈیا کے مطابق الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز ریٹرننگ افسران کو انتخابی نشانات کی تفصیل ارسال کی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونے ہیں جس کے لیے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہو چکے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی ایک دن قبل انتخابی نشانات کے حوالے سے ارسال کی گئی فہرست میں تحریکِ انصاف کا نام اور بلے کا نشان شامل نہیں تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق کمیشن کی ارسال کی گئی فہرست میں 145 جماعتوں کے نام اور نشانات شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ عام انتخابات کے شیڈول کے مطابق تین دن بعد 13 جنوری کو انتخابی نشان جاری کیے جائیں گے۔