خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کوہاٹ اور بنوں میں دو مختلف مقامات پر مبینہ عسکریت پسندوں نے پولیس پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق انڈس ہائی وے پر کوہاٹ کی حدود میں قائم لاچی ٹول پلازہ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔
حکام کے مطابق منگل کی شب کیے گئے حملے میں مبینہ عسکریت پسندوں نے جدید خود کار ہتھیار استعمال کیے۔ اس حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔
کوہاٹ کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کے ایک ترجمان نے رابطہ کرنے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاچی ٹول پلازہ پر پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس دوران تین پولیس اہلکاروں اور ایک عام شہری نشانہ بنے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حملے میں ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) اور ہیڈ کانسٹیبل مارے گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے شہری کا تعلق لکی مروت سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ حملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے و قوع پر پہنچی اور علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش میں سرچ آپریشن شروع کر دیا۔
مقامی میڈیا نے پولیس حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد لگ بھگ 10 تھی۔
پولیس ترجمان نے یہ واضح نہیں کیا کہ حملہ آوروں کا کوئی جانی نقصان ہوا یا نہیں اور یہ مبینہ عسکریت پسند اس مقام تک کس طرح پہنچنے اور فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
بنوں میں ایک عسکریت پسند سے چھ گھنٹے مقابلہ
قبل ازیں ضلع بنوں کے علاقے ٹیری رام میں انسدادِ پولیو مہم کے رضا کاروں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی۔ اس حملے میں ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) سمیت دو اہلکار ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ فرنٹیئر ریزرو پولیس (ایف آر پی) کے دو اہلکار بارک زئی میں انسدادِ پولیو ٹیم کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور تھے۔
انسدادِ پولیو مہم کے دوسرے روز ڈیوٹی سے واپسی پر تھانہ میریان کے علاقے ٹیری رام میں دو موٹر سائیکل سواروں نے ان اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں اہلکار زخمی ہوئے۔
حکام کے مطابق پولیس اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور بھی زخمی ہونے کی اطلاع موصول ہوئی۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور فرار ہوتے طوری کلی نامی گاؤں میں داخل ہوئے جہاں ایک حملہ آور نے گھر میں گھس کر مورچہ بنا لیا۔ البتہ اس گھر کے مکین حملہ آور کے داخل ہوتے ہی باہر نکل گئے تھے۔
پولیس حکام نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ عسکریت پسند کے گھر میں داخل ہوتے ہی پولیس نفری بھی وہاں پہنچ گئی اور اس گھر کا محاصرہ کر لیا۔ اس دوران ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) گھر میں داخل ہوا جس کو عسکریت پسند نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا جب کہ ایک اور پولیس اہلکار سکندر خان کو چھت کے اوپر مورچے سے فائرنگ کرکے نشانہ بنایا جو موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
بنوں سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد وسیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کرنے والے مبینہ عسکریت پسند نے گھر میں گھس کر مزاحمت شروع کی جب کہ فوج اور پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں نے اس کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مبینہ عسکریت پسند کو نشانہ بنانے کے لیے راکٹ لانچر سمیت بھاری ہتھیار استعمال کیے گئے۔
ان کے بقول آپریشن کے دوران گھر کو مسمار کر دیا گیا اور مبینہ عسکریت پسند کو ہلاک کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق گھر میں چھپے ایک عسکریت پسند کے خلاف سیکیورٹی اداروں کا آپریشن لگ بھگ چھ گھنٹوں تک جاری رہا۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد ہلاک ہونے والے دونوں پولیس اہلکاروں کی لاشیں اسپتال منتقل کی گئیں۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ آپریشن میں کئی اہلکار زخمی بھی ہوئے جن کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا۔
کوہاٹ اور بنوں میں ہونے والی حملوں کی ذمہ داری ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی۔
بنوں کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس قاسم علی خان نے رات گئے پولیس اہلکاروں کے نمازِ جنازہ کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ان واقعات کی تحقیقات جاری ہیں۔ جس کی تکمیل پر اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہو گی۔
اس سے قبل پیر کو قبائلی ضلعے باجوڑ میں انسدادِ پولیو مہم کے دوران سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا تھا۔
اس بم دھماکے میں سات پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے جب کہ دو درجن سے زائد زخمی اہلکاروں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔
دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار سے پشاور جانے والی گاڑی پر سدہ قصبے کے قریب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے دو خواتین اور دو سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں ایسے وقت میں اضافہ ہو رہا ہے جب ملک میں چار ہفتوں میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر نہیں ہے اس لیے عام انتخابات کو مؤخر کیا جائے۔ اس حوالے سے پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) سے ایک قرار داد بھی منظور کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ کے ایک گاؤں تپی میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 40 کے امیدوار اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ کی گاڑی پر انتخابی مہم کے دوران حملہ کیا گیا تھا۔ جب کہ یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان (ڈی آئی خان) میں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی -ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر فائرنگ ہوئی ہے۔ البتہ بعد ازاں حکام کا کہنا تھا کہ فائرنگ کا نشانہ جے یو آئی کا قافلہ نہیں تھا بلکہ یہ پولیس پر حملہ ہوا تھا۔ جب کہ اس قافلے میں مولانا فضل الرحمٰن موجود نہیں تھے۔
رواں ماہ ہی قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں نامعلوم افراد نے چھ حجاموں کو اغوا کرنے کے بعد گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ البتہ اس واقعے کی ذمہ داری کسی عسکریت پسند گروہ نے قبول نہیں کی تھی۔
اسے سے پہلے گزشتہ برس کے آخری ماہ دسمبر 2023 میں ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں سیکیورٹی اداروں کے زیرِ استعمال ایک عمارت پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 23 اہلکار ہلاک ہوئے تھے جب کہ فورسز نے 27 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ جہاد نامی ایک غیر معروف عسکریت پسند گروہ نے قبول کی تھی۔
پاکستان مسلسل یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے اندر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان پاکستان کے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر ہونے والے حملے اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ اسلام آباد کو اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔
حالیہ دنوں میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی روک تھام اور دونوں ملکوں میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پر وفود کا تبادلہ بھی ہوا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں پاکستان کا ایک وفد افغان طالبان سے بات چیت کے لیے افغانستان میں موجود ہے۔ اس سے قبل افغان وفد طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی ساتھی ملا شیریں اخوند کی قیادت میں اسلام آباد آیا تھا۔