پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے لاپتا صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے کیس میں عدالت کو بتایا ہے کہ صحافی کی بازیابی سے متعلق ان کے والد اور وکیل کو پیش رفت سے آگاہ کر دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے بدھ کو عمران ریاض خان کی بازیابی کے لیے ان کے والد کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس امیر بھٹی نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ معاملے پر کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ جس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ عدالت کے احکامات کے مطابق عمران ریاض خان کے والد سے ملاقات کی ہے اور پوری پیش رفت سے متعلق انہیں آگاہ کر دیا ہے۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کے مطابق دورانِ سماعت آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے دعویٰ کیا کہ صحافی کی بازیابی سے متعلق معاملے پر درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
درخواست گزار محمد ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پولیس کی تفتیش درست سمت میں بڑھ رہی ہے۔ کیس میں کسی بھی وقت پیش رفت ہوسکتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد لاپتا صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انہیں عدالت پر اعتماد ہے لیکن انہیں اس وقت اطمینان ہوگا جب ان کا بیٹا ان کے سامنے موجود ہوگا۔
آئی جی سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عثمان انور پہلے دن سے امید دلاتے رہے ہیں۔ امید ہے خیر ہی ہو گی۔
صحافی عمران ریاض خان رواں برس 11 مئی سے لاپتا ہیں۔ چار ماہ قبل وہ سیالکوٹ سے مشرقِ وسطیٰ کے ملک عمان روانہ ہونے والے تھے جب پولیس نے انہیں گرفتار کیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کے بعد تھری ایم پی او یعنی نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر عمران ریاض کو پہلے سیالکوٹ کینٹ تھانہ اور پھر جیل منتقل کیا گیا تھا۔
اُن کے وکلا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سیالکوٹ جیل سے 'نامعلوم' نقاب پوش افراد انہیں اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔البتہ پولیس حکام اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں عمران ریاض کے حوالے سے عدالت میں لاعلمی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
عمران ریاض کے والد محمد ریاض نے بیٹے کی گمشدگی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں یہ معاملہ زیرِ سماعت ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بدھ کو سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ آئی جی پنجاب نے عمران ریاض خان کی بازیابی کے لیے گزشتہ سماعت پر 10 سے 14 دن دینے کی استدعا کی تھی اور یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے پاس مصدقہ معلومات موجود ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ عمران ریاض خان کی بازیابی ممکن ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض کے حوالے سے امید ہے کہ وہ کسی بھی وقت یا کسی بھی لمحے ان کے ساتھ موجود ہوں گے۔ ان کے بقول عدالت میں آئی جی پولیس نے بھی یہی معلومات فراہم کی ہیں۔
میاں علی اشفاق کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت کے بعد ہونے والی پیش رفت سے امکان تو یہ تھا کہ اب تک عمران ریاض خان کو واپس آ جانا چاہیے تھا اور اداروں کو انہیں بازیاب کرا لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے عمران ریاض خان کی گمشدگی کو اغوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ ہزاروں معاملات پر سوال و جواب کرتے ہیں۔ اس معاملے کو یہاں تک نہیں لانا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیے
پنجاب پولیس کو لاپتا صحافی عمران ریاض خان کو دو ہفتے میں بازیاب کرانے کا حکمعمران ریاض کی گمشدگی: 'پورا خاندان کرب سے گزر رہا ہے'عمران ریاض خان بازیابی کیس؛ 'بس کچھ رکاوٹیں باقی ہیں' عالمی تنظیمو ں کا پاکستان سے صحافیوں کے خلاف بغاوت کے الزامات ختم کرنے کا مطالبہعمران ریاض کی گمشدگی؛ 'پورا خاندان رات بھر جاگتا ہے کہ شاید کوئی اطلاع آ جائے'عمران ریاض کہاں ہیں؟واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک ہفتہ قبل بدھ کو ہی اس کیس کی سماعت ہوئی تھی جس میں عدالت نے پولیس کو لاپتا صحافی کی بازیابی کا حکم دیا تھا جب کہ آئی جی پولیس کو عمران ریاض خان کے والد اور ان کے وکلا سے ملاقات کرکے پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عمران ریاض خان کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا حامی اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔
عمران ریاض خان سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر خاصے متحرک تھے اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سمیت دیگر عالمی تنظیمیں بھی عمران ریاض خان کی بازیابی کے مطالبات کر چکی ہیں۔