روس کے صدر ولادی میر پوٹن پیر کو سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت پہنچ رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب ماسکو کی جانب سے بھارت کو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم دینے کی تیاری کی جا رہی ہے جس سے امریکہ کی جانب سے بھارت پر پابندیاں لگانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے انجنا پسریچا کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ساتھ قریبی اسٹرٹیجک تعلقات کے دوران بھارت کا روس کے ساتھ ایس 400 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹمز کی خریداری کے لیے پانچ ارب 40 کروڑ ڈالر کا معاہدہ ماسکو کے ساتھ نئی دہلی کی شراکت داری کو برقرار رکھنے کے چیلنج کو نمایاں کرتا ہے۔
البتہ واشنگٹن نئی دہلی کو اکثر خبردار کرتا رہا ہے کہ روس سے پانچ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایئر میزائل سسٹمز کی خریداری 2017 کے امریکی قانون کے خلاف ہے۔ تاہم بھارت کا مستقل پیغام رہا ہے کہ اس کی قومی سلامتی کے مفادات اس کی دفاعی خریداری میں رہنمائی کرتے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ مملکت برائے دفاع اجے بھٹ نے جمعہ کو پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ حکومت خطرات کے تدارک، آپریشنل اور تیکنیکی پہلوؤں کی بنیاد پر خود مختار فیصلے لیتی ہے تاکہ مسلح فورسز کو سیکیورٹی چیلنجز کے تمام امور سے نمٹنے کے لیے تیار رکھا جا سکے۔
SEE ALSO: افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے کا دورہ بھارت: واشنگٹن کو بھارت سے کیا توقعات ہیں؟بھارت کا کہنا ہے کہ اسے چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایس 400 سسٹم درکار ہے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے متنازع ہمالیائی سرحد پر نصب کیا جائے گا جہاں چین اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال سے کشیدگی چلی آ رہی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ نے گزشتہ دسمبر میں روس سے یہی میزائل سسٹم خریدنے پر ترکی پر پابندیاں لگائی تھیں۔ یہ پابندیاں اس امریکی قانون کے تحت لگائی گئی تھیں جس کے مقاصد میں ممالک کو روسی فوجی سازوں سامان خریدنے سے روکنا شامل ہے۔
تاہم نئی دہلی امریکی صدارتی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے پرامید نظر آتا ہے کیوں کہ انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر قابو پانے کی مشترکہ کوششوں کے سلسلے میں بھارت کے امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
بھارت کے لیے ممکنہ استثنیٰ
البتہ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 23 نومبر کو ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے بھارت کے لیے ممکنہ استثنیٰ پر ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن میں موجود مبصرین کا کہنا ہے کہ استثنیٰ ناگزیر ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نئی دہلی کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہے گی۔ کیوں کہ بھارت پر پابندیاں دو طرفہ تعلقات کو دہائیوں کی کم ترین سطح پر لے جائیں گی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت کے لیے استثنیٰ وقتی ہو گا۔
ان کے بقول استثنیٰ نئی دہلی کی ماسکو کے ساتھ وسیع دفاعی تجارت کے لیے کسی قسم کا کوئی مفت پاس نہیں ہو گا۔ لہٰذا امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات میں روس کا عنصر ہمیشہ ایک کشیدگی کا نقطہ رہے گا۔
اسٹرٹیجک ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں بھارت اور روس مختلف جیو پولیٹکل سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں وہیں نئی دہلی سرد جنگ کے اتحادی کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعلقات خراب کرنے کو تیار نہیں ہے جو اب بھی ایک اہم دفاعی سازو سامان کا فراہم کنندہ ہے۔
روسی صدر کے دورۂ بھارت میں کئی معاہدے متوقع
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں سیکیورٹی، اسٹریٹیجی اور ٹیکنالوجی کے مرکز کی ڈائریکٹر راجیس واری پلائی راجاگوپالن نے کہا کہ بھارت کے لیے چین نمبر ون مخالف ہے جب کہ روس کے لیے چین ایک اتحادی ہے اور روس کے لیے امریکہ اہم مخالف ہے جس سے بھارت کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا ایک لحاظ سے ہمارے تصوارت میں کافی عدم مماثلت ہے جہاں سے ہمارے خطرات کا آغاز ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ روس کے صدر کا یہ دورہ عالمی وبا کے بعد سے ایک غیر معمولی غیر ملکی دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ جون میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لیے روس سے باہر گئے تھے۔
اس اجلاس کے علاوہ نئی دہلی میں دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور خارجہ بھی ملاقات کریں گے۔ اجلاس میں 10 معاہدوں پر دستخط کا امکان ہے۔
روس کے لیے بھارت کے سفیر وینکاٹیس ورما نے گزشتہ ماہ تاس نیوز ایجنسی کو کہا تھا کہ بھارت لڑاکا طیاروں اور ٹینکوں کے آرڈر بھی دے سکتا ہے۔
بھارت کو امید ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات افغانستان میں کردار ادا کرنے میں بھی مدد کریں گے جہاں اس کے حریف چین اور پاکستان کو اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا نئی دہلی کے لیے اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ یہ بتا سکے کہ اس کے کسی ایک ملک سے قریبی تعلقات نہیں ہیں۔