|
چین اور روس کے رہنماؤں نے وسطی ایشیائی خطے کی ایک کانفرنس کے دوران اپنے حلیفوں اور شراکت داروں سے بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کی اپیل کی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ قازقستان کے دارالحکومت استانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔
شی جن پنگ نے جہاں بیرونی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی بات کی وہیں پوٹن کا کہنا تھا کہ عالمی طور پر سیاست اور معیشت کے نئے مرکز ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شی نے سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں بیرونی رسوخ کے خلاف مل کر مزاحمت کرنی چاہئے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے کی تشویش کا خیال رکھنا ہو گا اور اپنے ممالک کا مستقبل اور قسمت کا فیصلہ خود کرنا ہو گا، علاقائی امن اور ترقی ہمارے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔‘‘
SEE ALSO: ہمیں درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے : روسی صدرانہوں نے مزید کہا کہ یہ اہم ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم تاریخ کی درست جانب ہو اور انصاف اور راستی کا ساتھ دے۔
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں، جسے کریملن کی جانب سے شائع کیا گیا، گروپ نے عالمی سیاست میں بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ کیا، اور اتحاد سے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے زیادہ کردار ادا کرنے پر زور دیا۔
اعلامیے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، جیوپالیٹیکل کشیدگی اور جنگوں کے بڑھنے کا ذکر کیا گیا۔
اعلامیے میں روس کے یوکرین پر حملے اور چین کی تائیوان سے جاری کشیدگی کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن گروپ نے ریاستوں کے مابین خودمختاری، آزادی اور علاقائی سلامتی کے احترام کی بات کی۔
پوٹن نے اجلاس کے دوران ملٹی پولر، یعنی ایک سے زائد عالمی طاقتوں کی موجودگی کو حقیقت قرار دیا۔
SEE ALSO: شمالی کوریا کا "ہائپرسونک" میزائل لانچ کے بعد فضا میں پھٹ گیا: جنوبی کوریاشنگھائی تعاون تنظیم 2001 میں قائم ہوئی تھی لیکن گزشتہ چند برسوں میں یہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس گروپ میں چین، روس اور بیلاروس کے علاوہ بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، پاکستان اور تاجکستان شامل ہیں۔
اس پلیٹ فارم کا مقصد معیشت اور خطے کی سلامتی میں تعاون ہے اور اس کی توجہ زیادہ تر وسطی ایشیا پر ہے۔ یہ گروپ دنیا کی چالیس فیصد آبادی، اور تیس فیصد جی ڈی پی کی نمائندگی کا دعوی کرتا ہے۔
اپنے مشترکہ اعلامیے میں گروپ نے نام نہ لیتے ہوئے امریکہ اور اس کے علاقائی حلیفوں پر یک طرفہ اور بنا کسی روک ٹوک کے دفاعی میزائل نظام بڑھانے پر تنقید کی۔
جب کہ گروپ نے غزہ میں مکمل اور مستحکم جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا۔ گروپ نے فلسطینی مسئلے کے حل کی بھی بات کی۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات: خارجہ پالیسی کے اہم مسائل اور صدارتی امیدوارپاکستان کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ پاکستان اکتوبر میں گروپ کے رہنماؤں کے اگلے اجلاس کا میزبان ہو گا۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ گروپ کی تمام رکن ریاستوں کے سربراہ اس سمٹ میں شرکت کریں گے۔ اس سوال پر کہ کیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی خوش آمدید کہا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھی دعوت دی جائے گی۔
اس خبر کے لیے مواد فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لیا گیا۔