اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کی ایک خوفناک صورتحال کا سامناہے کیونکہ ہر دس افغان خاندانوں میں سے نو مناسب خوراک کے فقدان کا شکار ہیں اور بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہور ہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو سکائپ پر دیے گئے ایک انٹر ویو میں پروگرام کے ڈپٹی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر اور چیف آپریٹنگ آفیسر کارل سکائیونے کہا کہ افغانستان کی اس خوفناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیاکے سب سے بڑے انسانی ہمدردی کے ادارے کو ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔جب کہ ہم اب تک صرف اس رقم کا لگ بھگ 10 فیصد حاصل کر سکے ہیں۔
سکائیو نے وی او اے کی افغان سروس کے وحید فیضی کو بتایا کہ انہوں نے کابل اور پروان ، دونوں صوبوں کا دورہ کیا اور شہری اور دیہی دنوں علاقوں کا جائزہ لیا جس سے اندازہ ہوا کہ وہاں صورتحال مسلسل مایوس کن ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ افغان لوگوں کی ہمت اور آگے بڑھنے کے ان کے عزم اور جذبے سے بھی متاثر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں اور خاص طور پر خواتین کا ، جن سےمیں نے بات کی، پیغام یہ ہی تھا کہ ہمیں چھوڑکر نہ جائیں ہمیں خوراک پہنچاتےرہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم وہاں اپنی سر گرمیاں جاری رکھنے کا عزم رکھتےہیں لیکن اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کی کمی ہے ۔
سکائیو نے کہاکہ گزشتہ سال تک تو ہمیں خاصے فنڈز دستیاب تھے اور ہم نے دو کروڑ لوگوں تک یعنی لگ بھگ نصف آبادی تک امداد پہنچائی تھی ۔ ہم نے دسمبر ، جنوری اور فروری میں 13 ملین لوگوں تک خوراک پہنچائی۔ مارچ میں ہمیں اس میں سے آٹھ ملین اور مئی میں پانچ ملین مزید لوگوں کو منہا کرنا پڑا ۔
اور اب ہم اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ موسم سرمامیں لوگوں تک خوراک پہنچانے کے لیے اپنی سر گرمیوں میں پھر سے اضافہ کریں او ر اس کےلئے ضروری ہے کہ عطیات دہندگان گزشتہ سال کی طرح ہی عطیات دیں ۔
اس سوال پرکہ کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ کچھ علاقوں میں طالبان امداد کی تقسیم میں مداخلت کرتےہیں اور اپنے لئے امداد حاصل کرلیتے ہیں ، سکائیو نے کہا کہ میرے پاس اس بارے میں بات کرنے کےلئے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر ہماری ورک فورس کےساتھ کام کی ممانعت کی وجہ سے ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
SEE ALSO: افغان خواتین پر طالبان کی پابندیاں انسانیت کے خلاف جرم ہیں: عالمی تنظیمیںانہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ خواتین کے ساتھ خوراک کی ترسیل میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے اور اسی لیے ہمیں اپنے ساتھ خواتین کارکنوں کی ضرورت ہے جو ہمیں خواتین تک امداد پہنچانے اور یہ یقینی بنانے میں مددکر سکیں کہ خوراک واقعی ان لوگوں تک پہنچ گئی ہے جنہیں پہنچانا مقصود تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ادارے نے خواتین کو ملازمتوں سے فارغ یا ان کی جگہ مردوں کو تو بھرتی نہیں کر لیا ہے، توسکائیو نے کہا کہ ایسا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ اس کی جانب سے خواتین کے ساتھ خوراک کی ترسیل میں کسی قسم کا امتیازی برتاو روا نہ رکھا جائے اور اپنی ورک فورس میں ان کا تناسب برقرار رکھا جائے ۔
انہوں نےکہا کہ وہ جب کبھی حکام سےملتے ہیں تو ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس حکم کو تبدیل کریں اور خواتین کو پہلے کی طرح ہمارے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیں۔ اور ان حکمناموں کی وجہ سے ہم کسی بھی خاتون کو ادارے کی ملازمت سےنہیں نکالیں گے اور نہ ہی ہم ان کی جگہ مردوں کو بھرتی کریں گے۔
SEE ALSO: روٹی اور گلاب: طالبان کے جبر سے دبی ہوئی افغان خواتین کی کہانیانہوں نے کہا کہ ہم خواتین کےلئے ادارے کے ساتھ کام جاری رکھنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ملک بیس سال کی جنگ سے گزرا ہے اور اب اس کی معیشت تباہ ہونے کو ہے اور وہاں کے عام لوگ بین الاقوامی امداد کے بغیر گزارا نہیں کر سکتے ۔
صرف اس سال گندم کی پیداوار میں تیس فیصد کمی ہوئی ہے تو صورتحال بہت خراب ہے۔ اور اب ہمیں ایک سخت موسم سرما کا سامنا ہے ۔ اور یہ مسلسل تیسرا موسم سرما ہوگا جس میں خوراک اور ایندھن کی کمی ہو گی ۔
اور لگ بھگ نصف آبادی کو بحران یا خوراک کی ہنگامی درجے کی قلت کا سامنا ہو گا۔ تو صورتحال بہت گھمبیر ہے ۔ اس لیے ہمیں ان انتہائی ضرورتمندوں کے لیے اپنی امداد میں اضافہ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کام کرنے کے مشکل اور پےچیدہ حالات کے باوجود عالمی ادارہ لوگوں تک خوراک پہنچانے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔