اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر نے پیر کے روز کہا کہ 2023 کے لیے افغانستان کے امدادی منصوبے کے بجٹ کو جو سال کے شروع میں 4.6 بلین ڈالر سے کم تھا، اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے اداروں نے 3.2 بلین ڈالر کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نظرثانی شدہ منصوبے میں تبدیلی خواتین امدادی کارکنوں پر طالبان انتظامیہ کی پابندیوں کے تناظر میں کی گئی ہے ۔
طالبان حکام نے متعدد افغان خواتین این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ملازمین کو کام کرنے سے روکنے کے متعدد احکامات جاری کیے ہیں، جن کے بارے میں امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ مذہبی طور پر قدامت پسند ملک میں ان پابندیوں سے ، امداد کی فراہمی کو شدید نقصان پہنچے گا۔
اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "افغان خواتین کے لیے کام کرنے والی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ملازمین پر حالیہ پابندیوں نے پیچیدگی کی ایک اور سطح کا اضافہ کیا ہے جو پہلے سے ہی ایک ناقابل یقین حد تک اوپر جا چکی ہے، اور اس نے شراکت داروں کی آپریشنل صلاحیت کو مزید محدود کر دیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ افغانستان کی صورت حال، بدستور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے، جہاں دو تہائی سے زیادہ آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
انسانی ہمدردی کے ادارے کےکچھ عہدیداروں اور سفارت کاروں نے ،خواتین کارکنوں پر طالبان کی پابندیوں کے باعث ، عالمی بحرانوں اور معاشی ترجیحات کا جائزہ لینے والے اور عطیات دینے والے ملکوں کی حکومتوں کی طرف سے جنگ سے تباہ حال ملک کو مالی امداد میں ممکنہ کمی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
یہ واضح نہیں تھا کہ نظرثانی شدہ بجٹ کا کتنا حصہ غیر ملکی عطیہ دہندگان کی جانب سے فراہم کیا جائے گا۔انسانی ہمدردی کی عالمی اپیلوں کے جواب میں اکثر درخواست کردہ کل امداد ی رقم سے کم ہی رقم جمع ہوتی ہےسن دوہزار بائیس میں ، 4.4 بلین ڈالر امداد کی اپیل کی گئی تھی لیکن تقریباً 3.2 بلین ڈالر موصول ہوئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کی تعداد میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے اپریل میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر امداد میں 30 فیصد کمی ہوئی تو افغانستان کی معیشت سکڑ جائے گی اور افراط زر بڑھے گا۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)