کوئٹہ: پشتونوں اور بلوچوں کو ’’ہراساں کیے جانے‘‘ کے خلاف ہڑتال

اطلاعات کے مطابق، جمعے کے روز صوبے کے تمام بڑے بازار، دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے؛ شہر میں ٹریفک معمول سے کم تھی، جبکہ سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں بھی ہڑتال کے باعث حاضری کم رہی

پاکستان کے صوبہٴ پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے پشتو بولنے والے دکانداروں کو نوٹس دینے اور بعض کو حراست میں لینے کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں جمعے کو مکمل شٹرڈاﺅن ہڑتال کی گئی۔

اطلاعات کے مطابق، جمعے کے روز صوبے کے تمام بڑے بازار، دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے؛ شہر میں ٹریفک معمول سے کم تھی، جبکہ سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں بھی ہڑتال کے باعث حاضری کم رہی۔


ہڑتال کی کال ’عوامی نیشنل پارٹی‘، تاجر تنظیموں اور دیگر سیاسی جماعتوں نے دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، صوبے کے پشتون اکثریتی آبادی والے اضلاع کے مرکزی شہروں میں بھی شٹرڈاﺅن ہڑتال رہی اور لوگوں نے پرامن احتجاجی مظاہرے کئے۔


عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صدر، اصغر خان اچکزئی نے شام کو کوئٹہ میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ’’پاکستان اور افغانستان میں جاری دہشت گردی کی لہر نے سب سے زیادہ پشتونوں کو متاثر کیا ہے، ایسے میں صوبہٴ پنجاب، سندھ اور اسلام آباد میں پولیس کی جانب سے پشتونوں کو حراست میں لینے کا عمل افسوسنا ک ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’اس عمل سے مختلف صوبوں کے لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں گی، جس سے ملک کی یکجہیتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے‘‘۔

پنجاب کے صوبائی وزیر، رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ’’پولیس کی جانب سے لسانی بینادوں پر پشتونوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ برعکس اس کے، بعض جرائم پیشہ افراد اور شناختی کارڈ و دیگر لازمی کاغذات نہ رکھنے والے مختلف صوبوں کے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی، جو اب ختم کر دی گئی ہے‘‘۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ سہون اور لاہور میں ہونے والے خودکش حملوں کے بعد صوبہٴ پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پشتونوں نے پولیس کی طرف سے ’’بے جا پوچھ گچھ اور ہراساں کیے جانے‘‘ کی شکایات کی تھیں۔